تین ستمبر کی گرم دوپہر تھی، جب جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے ایک دشوار گزار کچے کے علاقے میں پولیس نے پہلی مرتبہ ڈاکوؤں کے خلاف ایک کارروائی میں ڈرونز کا کامیاب استعمال کیا۔
پولیس نے کچہ رونتی کے جزیرہ نما علاقے میں کئی ڈاکوؤں کو زخمی اور گرفتار کرنے کے علاوہ ان کی پناہ گاہیں بھی تباہ کیں۔
پولیس کے مطابق کارروائی میں گرفتار کیے گئے ڈاکوؤں کے ساتھیوں نے اگلے ہی روز ملتان سکھر موٹر وے پر ایک مسافر بس سے 10 افراد کو اغوا کر لیا۔
جنوبی پنجاب میں سیلاب کی تباہ کاریوں نے عام شہریوں کو تو بے گھر اور بے آسرا بنا رکھا ہے لیکن اس قدرتی آفت کا کوئی اثر پنجاب اور سندھ میں فعال کچے کے ڈاکوؤں پر نظر نہیں آتا اور ان کی اغوا اور لوٹ مار کی وارداتیں اور ان کے خلاف گاہے بگاہے پولیس آپریشنز اسی طرح جاری ہیں۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب بڑے پیمانے پر تباہی اور 900 سے زیادہ اموات کی وجہ بنے ہیں، جب کہ اس قدرتی آفت سے پنجاب اور سندھ کے طویل میدانی علاقے بھی پانی میں ڈوب چکے ہیں۔
انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ شہری آبادیاں بھی حالیہ شدید مون سون بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جب کہ ہزاروں ایکڑ پر پھیلی کھڑی فصلیں اور زیر کاشت زمینیں بھی زیر آب آ چکی ہیں۔
دریاؤں کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے ان پر بنائے گئے بندوں اور بیراجوں کے اندر کافی زمین خالی چھوڑی جاتی ہے جسے ’کچے کا علاقہ‘ کہا جاتا ہے۔
کچے کے یہ علاقے سندھ اور پنجاب سے گزرنے والے دریاؤں جہلم، راوی، چناب اور سندھ پر لگے بندوں اور بیراجوں کے اندر موجود ہیں۔ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کچے کا علاقہ سب سے بڑا ہے، جو پاکستان کے تین صوبوں پنچاب، سندھ، بلوچستان کے بارڈ پہ واقع لاکھوں ایکڑ رقبے پہ مشتمل ہے۔
پنچاب کے جنوبی حصے رحیم یارخان، صادق آباد، راجن پور جب کہ سندھ کہ شمالی علاقوں شکار پور، گھوٹکی، سکھر اور کشمور وغیرہ کی زمینیں اس علاقے میں شامل ہیں۔
صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو ملانے والے علاقوں میں چار دہائیوں سے کچے کے علاقے ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں کئی گروہ کام کر رہے ہیں جن کے خلاف مسلسل پولیس کارروائیوں کے باوجود وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔
ہنی ٹریپ، سوشل میڈیا اور اسلحے کے زور پر اغوا برائے تاوان کا سلسلہ رک ہی نہیں سکا۔
حالیہ شدید مون سون بارشوں کے نتیجے میں سیلاب کی وجہ سے کچے کے سارے علاقے تو ڈوب گئے لیکن حیرت انگیز طور پر ڈاکوؤں کی پناہ گاہیں محفوظ ہیں۔
رحیم یار خان، راجن پور، صادق آباد میں دریائے چناب کے اطراف اوردریائے سندھ کے کنارے کچے کے علاقوں میں بھی شدید سیلاب ہے مگر کچے کے ڈاکو اب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ترجمان رحیم یار خان پولیس محمد ذیشان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سیلاب کے دنوں میں بھی پولیس کی کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ تین ستمبر کی ڈرونز کی مدد سے دریائی علاقے میں کامیاب کارروائی کی گئی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ سیلاب کے دنوں میں بھی کشتیوں کے ذریعے پولیس گشت کرتی ہے۔ اسی لیے ڈاکو موٹر وے سے چار ستمبر کو 10 افراد کو اغوا کرنے کے علاوہ کوئی واردات نہیں کر سکے ہیں۔‘
ڈاکوؤں کے محفوظ ٹھکانے
ذیشان کے بقول: ’دریائے چناب میں دو تین خشک جزیرے ہیں جو 10 سے 12 کلو میٹر طویل ہیں اور گھنے جنگلات پر مشتمل ہیں۔ یہ پانی کی سطح سے کافی اونچے ہیں اور وہاں سیلاب کا پانی نہیں پہنچ سکتا۔‘
انہوں ان علاقوں میں کارروائیوں میں درپیش مشکلات کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ان علاقوں میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا جاتا ہے تو وہ دریائے سندھ کی طرف کے جزیروں پر چھپ جاتے ہیں۔
’لیکن سندھ اور پنجاب پولیس کے ایک مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں کافی ڈاکو مارے گئے یا گرفتار ہوئے تھے۔‘
ذیشان کا کہنا تھا کہ ان کامیاب کارروائیوں کے بعد بچے کھچے ڈاکوؤں نے چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر کام جاری رکھا ہوا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب کی پارلیمانی کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین صفدر حسین ساہی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ’کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی تو پولیس مسلسل کر رہی ہے لیکن علاقہ کافی مشکل ہے جس کی وجہ سے یہ بچ نکلتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح کچھ عرصہ قبل دریائے چناب میں مظفر گڑھ کے اطراف کچے کے بڑے چھوٹے گینگز کے خلاف فوج، رینجرز اور پولیس نے مشترکہ کارروائیاں کی تھیں اسی طرز پر رحیم یار خان اور راجن پور سمیت دریائے سندھ میں کچے کے ڈاکووں کے خلاف آپریشنز ہونا چاہیے۔
’ہم نے متعدد بار اسمبلی میں اس معاملہ پر بات بھی کی ہے۔ اس کے بعد کئی بار کارروائی بھی ہوئی ہے۔ لیکن یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے۔‘
’ڈاکووں کے پاس جدید ہتھیاروں ہیں‘
صفدر حسین کے بقول: ’ہماری اطلاعات کے مطابق کچے کے ڈاکوؤں کے پاس جدید ہتھیار ہیں۔ ایسا اسلحہ پولیس کے پاس بھی موجود نہیں۔ اس لیے ان کا مکمل صفایا کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے گی۔‘
انہوں نے ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیوں میں تاخیر کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’ان دنوں حکومت سیلاب زدگان کی مدد میں مصروف ہے۔ لیکن جلد ہی جامع منصوبہ بندی کر کے ان ڈاکوؤں کو بھی چھوٹو گینگ کی طرح ختم کیا جائے گا۔‘
ڈی پی او رحیم یار خان عرفان سموں نے کچھ عرصہ قبل انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’کچے میں ڈاکوؤں کے پاس آر آر 75 جیسے جدید ہتھیاروں کے علاوہ مارٹر گولے، 12.7 اور 12.14 بور کی گنز ہیں، جبکہ پولیس کے پاس جی تھری اور ایس این جی بندوقیں ہوتی ہیں، جن کا ڈاکوؤں کے پاس موجود جدید اسحلے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔‘
عرفان سموں کے بقول: ’پولیس کے پاس جو بکتربند گاڑیاں تھیں وہ بی سکس ٹائپ کی تھیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ان بکتر بند گاڑیوں کے متعلق مزاحاً کہا جاتا تھا کہ یہ محض لوگوں کو لانے لے جانے کے کام ہی آ سکتی ہیں۔ یہ فائٹر بکتربند گاڑیاں نہیں تھیں۔‘
کچے میں ڈاکووں نے رواں سال پنجاب پولیس کی گاڑی پر لانچر سے حملہ کر کے متعدد اہلکاروں کو جان سے مار اور کئی ایک کو زخمی کر دیا تھا۔
عرفاں سموں نے بتایا کہ ’بعد ازاں ڈی سیون ٹائپ کی گاڑیاں ٹیکسلا سے منگوائی گئیں۔ لیکن ڈاکوؤں کے جدید ہتھیاروں کے سامنے ان گاڑیوں میں بھی مکمل حفاظت ممکن نہیں ہے۔‘