پاکستان کے سول ایوارڈ میں خواتین کی نمائندگی اتنی کم کیوں ہے؟

اس سال ایوارڈ حاصل کرنے والی 127 شخصیات میں صرف 15 خواتین ہیں۔

تصاویر: سوشل میڈیا

23 مارچ ’یومِ پاکستان‘ کے موقع پر صدر ڈاکٹرعارف علوی نے 127 شخصیات کو پاکستان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈز سے نوازا۔

اس ایوارڈ کو جیتنے والے 100 سے زائد افراد کی فہرست میں سائنس، ادب، کھیل، فن، صحافت اور دیگر شعبوں میں نمایاں کارکردگی سرانجام دینے والے پاکستانی شہری اور پاکستان کے لیے خدمات پیش کرنے والے 18 غیرملکی شہری شامل ہیں۔

 لیکن گزشتہ سالوں کی طرح اس مرتبہ بھی سول ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جہاں 2018 میں یہ اعزاز 17 خواتین کو ملا، وہیں اس سال 15 خواتین ایوارڈ کے لیے نامزد ہیں جن میں سے تین غیرملکی ہیں۔

ایورڈ کن خواتین کے نام رہا؟

پاکستان کے لیے اہم خدمات ادا کرنے کے لیے چین کے ایکسپورٹ امپورٹ بینک کی چیئرپرسن ہو شیاولیان کو ہلالِ قائداعظم کا ایوارڈ دیا گیا، جبکہ رومانیہ سے وجیہہ حارث اور چین سے لین یی کو ستارہِ پاکستان کا اعزاز دیا گیا۔

وجیہہ حارث رومانیہ میں شہرزادے فاؤنڈیشن کے نام سے این جی او کی صدر ہیں جبکہ لین یی چائنیز پیپلز ایسوسی ایشن فار فرینڈ شپ ود فارن کنڑیز کی نائب صدر ہیں۔

ان کے علاوہ معروف اداکارہ بابرہ شریف کو فن کے شعبے میں اور صائمہ شہباز ملک اور نیلوفر سعید کو پبلک سروس کے لیے ستارہِ امتیاز جبکہ مہوش حیات کو اداکاری کے شعبے میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

تمغہ حسنِ کارکردگی‎ حاصل کرنے والوں میں معروف نیوز کاسٹرعشرت فاطمہ، صحافی صوفیہ یزدانی، سندھ سے تعلق رکھنے والی سیانی خاتون اور معروف اداکارہ ریما خان شامل ہیں۔

ایوارڈ کی نامزدگیاں

پاکسان کے سب سے اعلیٰ سول ایوارڈز کے لیے نامزدگیوں کا آغاز ہر سال دسمبر میں ہوتا ہے اور حکومتی ادارے، محکمے اور صوبائی حکومتیں یکم مارچ تک اپنی نامزدگیاں کابینہ ڈویژن کو بھیج سکتے ہیں۔ مئی اور جولائی کے درمیان تین ایوارڈ کمیٹیاں ان پر غور کرتی ہیں اور آخری فہرست صدر پاکستان کو بھیجی جاتی ہیں، جن کی منظوری کے بعد 14 اگست یومِ آزادی کے دن ایوارڈز کا اعلان ہوتا ہے اور 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر ایوانِ صدر میں منعقدہ تقریب میں صدرِ پاکستان ان شخصیات کو ایوارڈ دیتے ہیں۔

اس سال صحافت کے شعبے میں تمغہ حسنِ کارکردگی کا ایوارڈ حاصل کرنے والی صوفیہ یزدانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ خبر سن کر خوشی سے ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

نوائے وقت اخبار سے تعلق رکھنے والی صوفیہ یزدانی پچھلے 20 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور اس دوران انہوں نے کئی اعزاز جیتے ہیں، جن میں آل پاکستان نیوزپیپر سوسائٹی کا سال کا بہترین آرٹیکل ایوارڈ اور حکیم سعید ایوارڈ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صحافت مردوں اور خواتین دونوں کے لیے مشکل پیشہ ہے لیکن عورتوں کے لیے زیادہ مشکل اس لیے ہے کیونکہ انہیں گھر کی ذمہ داریاں بھی ادا کرنی ہوتی ہیں۔ صوفیہ کے مطابق: ’خواتین جب کچھ حاصل کرتی ہیں تو ان کے لیے تو شاید دگنا ایوارڈ ہونا چاہیے کیونکہ وہ گھر بھی چلا رہی ہوتی ہیں اوراپنے شعبے میں کامیابی بھی حاصل کر رہی ہوتی ہیں۔‘

سول ایوارڈز میں خواتین کی تعداد کم ہونے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ اس میں خواتین کے خلاف کوئی تعصب ہے، ’جب ادارے سول ایوارڈز کے لیے نامزدگیاں بھیجتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ خواتین کی کارکردگی کو بھی اجاگر کریں۔‘

اسی طرح تمغہ حسنِ کارکردگی حاصل کرنے والی معروف ریڈیو اور ٹی وی نیوزکاسٹر عشرت فاطمہ نے بتایا کہ وہ اپنے کام کو سراہے جانے پر بہت خوش ہیں۔

عشرت فاطمہ 19 سال کی تھیں جب انہوں نے پہلی بار ٹی وی پر خبریں پڑھیں اور اس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا۔ 35 سالوں سے عشرت فاطمہ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر خبرنامہ پڑھ رہی ہیں۔

انہوں نے کہا: ’مجھے تو لگتا ہے کہ اگر میں خبریں نہیں پڑھوں گی تو یہ ایسے ہوگا جیسے میری رگوں سے کوئی خون نکال رہا ہے۔ یہ میرا پیشہ نہیں بلکہ میرا شوق ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سول ایوارڈز کے لیے خواتین خود سے تو کچھ کر نہیں کرسکتیں لیکن اداروں کو چاہیے کہ وہ نام بھیجتے ہوئے اس بات کا بھی دھیان رکھیں کہ خواتین کے کام کو بھی سراہنا ہے۔

نمائندگی کم کیوں؟

ان ایوارڈز کے بارے میں پچھلے کچھ سالوں کے حکومتی اعلانوں اور میڈیا رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ ہر سال فہرستوں میں خواتیں کی تعداد 10 سے 15 فیصد ہی رہی ہے۔

اس سال ایوارڈ حاصل کرنے والے 127 افراد میں صرف 15 خواتین ہیں۔ اسی طرح 2018 میں نامزد 141 افراد میں صرف 17 خواتین تھیں جبکہ 2017 میں 145 میں سے 14 خواتین، 2016 میں 159 میں سے 11 اور 2015 میں 159 میں سے 14 خواتین شامل تھیں۔

خواتین پاکستان کی آبادی کا 49 فیصد حصہ ہیں مگر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق ان کی لیبر فورس میں شراکت مردوں کی 82.5 فیصد تعداد سے تین گنا کم یعنی صرف 24.5 فیصد ہے۔ یہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں خواتین کی لیبر فورس میں شراکت کی سب سے کم شرح ہے۔

دفاتر اور اداروں میں خواتین کی تعداد کم ہونا بھی سول ایوارڈز جیسے اعزازوں میں ان کی شمولیت کم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ نوکری پیشہ خواتین کو بہت سے مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کی وجہ سے وہ اکثر پیچھے رہ جاتی ہیں۔ 

ویمنز ڈیموکریٹک فرنٹ کی رکن طوُبیٰ سید کے مطابق سرکاری اداروں میں خواتین کی تعداد بہت کم ہے اور اگر ان کے لیے کوٹہ سسٹم ہے بھی تو وہ اس حد تک محدود ہے کہ صرف بھرتی کرنی ہے، اس سے آگے ترقی یا اچھی کارکردگی پر سراہنے کا تصور موجود نہیں ہے۔

اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے طوبیٰ سید نے کہا: ’سب سے پہلے تو خواتین کی بھرتیاں زیادہ ہونی چاہییں، پھر ان کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع ہونے چاہییں، ان کے لیے اسے اقدامات ہونے چاہییں کہ وہ مردانہ غلبے والے دفاتر میں بغیر کسی پریشانی کے کام کر سکیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ خواتین پر گھر سنبھالنے کی بھی اضافی ذمہ داری ہوتی ہے، لہذا وہ اکثر شادی یا بچوں کے بعد اپنے کیریئر کو ترجیح نہیں دے پاتیں اور نوکریاں چھوڑ دیتی ہیں۔ اگر حکومت ڈے کیئر فراہم کرے تو خوتین کام جاری رکھ سکتی ہیں۔

طوبیٰ نے کہا: ’پدرسری اور خواتین کے لیے تعصبانہ سوچ بھی خواتین کے لیے مواقعوں اور ترقی پانے کے راستوں میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اداروں میں ہراسانی کے خلاف پالیسیاں سخت اور جینڈر ٹریننگ ہونی چاہیے کیونکہ جب خواتین اپنے دفاتر میں محفوظ محسوس کریں گی تو تب ہی وہ آگے بڑھ سکیں گی۔

مسسل کوششوں کے باوجود اس مضمون کے لیے وزارت اطلات و نشریات کے ترجمان سے رابطہ نہ ہوسکا۔

طنز و تنقید

ایوارڈز میں خواتین کی تعداد کم ہونا تو ایک بڑا مسئلہ ہے ہی لیکن لوگوں کا ایوارڈ حاصل کرنے والی خواتین کو تنقید کا نشانہ بنانا اور ان کی کامیابیوں پر سوال اٹھانا بھی معاشرے کی عورت دشمن سوچ کی عکاسی ہے۔

حال ہی میں جب سول ایوارڈز کی فہرست جاری کی گئی تو تمغہ امتیاز کے لیے اداکارہ مہوش حیات کا نام دیکھ کر سوشل میڈیا پر لوگوں نے فوراً تنقید شروع کردی اور ان کی خدمات اور کامیابیوں اور حتیٰ کہ کردار پر بھی سوال اٹھائے گئے۔

ٹوئٹر پر ایک صارف سبطین بٹ نے لکھا کہ ’مہوش نے یہ اعزاز جینے کے لیے کیا کیا ہے؟‘ کئی اور صارفین نے دیگر دوسرے شعبوں میں خدمات ادا کرنے والوں کی تصاویر لگا کر کہا کہ ایوارڈ مہوش کی جگہ انہیں ملنا چاہیے۔

اس حوالے سے طوبیٰ سید نے کہا: ’یہ پدرسری سوچ کا ہی نتیجہ ہے، اگر مہوش کی جگہ یہ ایوارڈ ہمایوں سعید کو مل رہا ہوتا تو کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’مسئلہ یہی ہے کہ معاشرے میں آپ عورتوں کو گھر سے باہر برداشت نہیں کرسکتے۔ آپ کو لگتا ہے کہ عورت کا اصل مقام گھر ہی ہے اور جوں ہی وہ گھر سے باہر نکلتی ہے اور پھر کامیاب بھی ہوتی ہے تو آپ اُس کو ہی غلط قرار دیتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان