پنجاب میں 25 برس بعد بسنت کی مشروط اجازت، لیکن پتنگ بنائے گا کون؟

پتنگ سازی کی صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ 25 سال تک پابندی کے بعد بہت سے لوگوں پتنگ بنانے کی بجائے دیگر کاروبار شروع کر دیے ہیں۔

پنجاب حکومت نے پتنگ بازی پر عائد کی گئی 25 سالہ پابندی ختم کر کے اس کی مشروط اجازت دے دی ہے، جس سے لوگ تو خوش ہیں، وہیں اس صنعت سے وابستہ افراد نے دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کے حوالے سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پتنگ بنانے والے اب بھی ہیں۔

لاہور میں موچی گیٹ پر واقع پتنگوں کی سب سے بڑی مارکیٹ کے جنرل سیکرٹری محمد فیصل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس کام میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ہے۔ حکومت نے دوبارہ مشروط پتنگ بازی کی اجازت دے کر اچھا کام کیا ہے، لیکن ابھی ہم دیکھیں گے کہ کتنا عرصہ اجازت رہتی ہے، پھر ہی دوبارہ سرمایہ لگائیں گے، کیونکہ پیسہ جب ہی لگایا جاتا ہے، جب کمائی کی امید ہو۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد فیصل کے مطابق: ’حکومت نے جو شرائط رکھی ہیں، لوگوں کو ان کی پاسداری کرنی چاہیے تاکہ پتنگ بازی کے رنگ لاہور میں بکھرتے رہیں۔ کاروبار بھی چلے اور شوق بھی پورا ہوتا رہے، لیکن اس میں اب وقت لگے گا۔‘

نوید شہنشاہ پتنگ سازی سے دہائیوں تک وابستہ رہے تاہم حکومت کی طرف سے پابندی کے بعد انہوں نے یہ کارروبار چھوڑ دیا، ان کا کہنا ہے کہ شاید اس مرتبہ بسنت کی وہ رونقیں نہ ہوں جو کبھی ماضی میں ہوتی تھیں ’اتنے تھوڑے سے وقت میں پتنگ بنانے والے کیا تیار کریں گے۔‘ نوید شہنشاہ نے کہا کہ ’اب وہ (پتنگ) بنانے والے بھی مر گئے ہیں۔‘

لاہور میں کئی دہائیوں تک پتنگ بازی اور بسنت کے رنگ بکھرے نظر آتے تھے لیکن 2001 میں دھاتی ڈور پھرنے سے اموات یا چھتوں سے پتنگ اڑانے کے دوران بچوں کے گرنے کے باعث کائیٹ فلائینگ آرڈیننس کے تحت اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ گذشتہ چند سالوں میں اتنی زیادہ سختی ہوئی کہ پولیس ڈرون کیمروں کے ذریعے پتنگ بازی کرنے والوں کو چھتوں سے گرفتار کرتی رہی۔

تاہم اب حکومت نے یہ پابندی ختم کرتے ہوئے اس متعلق نیا قانون جاری کیا ہے، جس میں پتنگ بازی کو ریگولیٹ کرنے، انسانی جان، سرکاری و نجی املاک اور اس سے متعلقہ امور کو محفوظ بنانے کے اقدامات کا ذکر ہے۔  

موچی گیٹ کی پتنگ مارکیٹ کے دکاندار محمد عمران کے آباؤ اجداد گذشتہ 100 سال سے پتنگ اور ڈوریں بیچتے رہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’25 سال قبل جب پتنگ بازی پر پابندی لگی تو ہم نے تین سال تک کاروباری نقصان کیا۔ اب ڈپٹی کمشنر لاہور سے دوبارہ پتنگ اور ڈور بیچنے کا لائسنس حاصل کرلیا ہے۔‘

بقول عمران: ’پتنگ بازی اور بسنت پر لاہور کی چھتیں رات کو بھی چمکتی تھیں، لیکن اب تو بچوں کو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ پتنگ کیسے اڑتی ہے۔ پہلے تو لڑکے نہ صرف پتنگیں اڑاتے تھے، پیچے لگاتے بلکہ انہیں پتنگیں لوٹنے کا بھی شوق ہوتا تھا۔ یہ اندرون لاہور کی رونقیں تھیں، جو دوسرے ممالک سے بھی لوگ دیکھنے آتے تھے۔ ہم خوش ہیں کہ ہمارا آبائی کاروبار اب دوبارہ شروع کیا جاسکے گا۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک ڈور بنانے یا پتنگیں بنانے کا کام شروع نہیں ہوا، کیونکہ بسنت فروری مارچ کے دنوں میں ہوتی ہے۔‘

نوجوان بھی بسنت اور پتنگ بازی کی اجازت ملنے پر کافی خوش ہیں۔ محمد آصف نامی ایک بچے نے کہا: ’میری عمر 18 سال سے کم ہے لیکن حکومت نے کم عمر بچوں کے پتنگ اڑانے پر تو پابندی برقرار رکھی ہے، لہذا افسوس ہے کہ میں چاہتے ہوئے بھی پتنگ بازی نہیں کر سکوں گا۔ حکومت کو چاہیے کہ عمر کی حد میں کمی کی جائے۔‘

پتنگ بازی کے دیگر شوقین بھی اجازت ملنے پر کافی پرجوش ہیں کہ انہیں دوبارہ شوق پورا کرنے کا موقع ملے گا۔

حکومت کی جانب سے دھاتی ڈور پر پابندی اور پتنگوں کے سائز کی منظوری پر سب مطمئن دکھائی دیتے ہیں، البتہ حکومتی ہدایات کے مطابق موٹر سائیکل سواروں کے لیے بسنت کے دنوں میں حفاظتی راڈ لگوانا بھی ناگزیر ہوگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان