راولپنڈی کی تقریباً ہر حوالات پتنگ بازوں سے پر ہے: پولیس افسر

راولپنڈی كے سی پی او عمر سعید ملك كے مطابق پتنگ بازی كے خلاف كریك ڈاؤن میں 700 افراد كو گرفتار كر کے ایك لاكھ پتنگیں ضبط كی جا چكی ہیں۔

16 سالہ اشفاق عمر راولپنڈی كے ایک گنجان علاقے میں اپنے گھر كی چھت پر كھڑے كبھی آسمان میں ہزاروں رنگ برنگی پتنگوں اور كبھی اپنے قدموں میں پڑی ایك درجن چھوٹی بڑی گڈیوں كو حسرت بھری نگاہوں سے دیكھ رہے ہیں۔ 

راولپنڈی پولیس ترجمان سجاد الحسن کے مطابق پچھلے کچھ دنوں پتنگ بازی کے دوران شہر میں تقریباً ایك سو افراد ڈور سے كٹنے اور اس کھیل سے جڑے دوسرے واقعات میں زخمی ہو چکے ہیں۔ اشفاق كے والدین اسی بنا پر انہیں پتنگ بازی سے باز رکھ رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اشفاق كے والد وجاہت عمر نے كہا: ’مجھے نہیں معلوم تھا كہ بچہ اپنے جیب خرچ سے پتنگیں خرید لایا ہے، اس كی ماں نے مجھے بتایا اور میں نے منع كر دیا كہ نہیں اڑانی۔‘ 

وجاہت نے دوسرے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں كو پتنگ بازی سے دور ركھیں کیونکہ كہ كھیل ایسا ہونا چاہیے جو صحت مند سرگرمی كہلائی جا سكے۔

’یہ كیسا كھیل ہے جس سے نہ صرف كھلاڑی بلكہ راہ چلتے معصوم لوگ بھی زخمی ہو رہے ہیں، حتٰی کہ آسمان میں اڑتے پرندے تك محفوظ نہیں۔‘ 

وجاہت ان چند والدین میں سے ہیں جو اپنے بچوں كو پتنگ بازی سے دور ركھنے كی كوشش كرتے ہیں لیکن پاكستان میں اكثر گھرانوں میں اسے برا نہیں سمجھا جاتا۔ 

یاد رہے كہ پتنگ بازی برصغیر كے تاریخی اور ثقافتی تہوار بسنت كا حصہ ہے جو عام طور پر موسم بہار كے اوائل میں منایا جاتا ہے۔ بعض دیہی علاقوں میں فصل كے كٹنے پر بھی پتنگ بازی كی جاتی ہے۔ 

ماہ رواں كے شروع میں حكومت پنجاب نے صوبے میں بسنت منانے یا پتنگ بازی پر پابندی لگا دی تھی، جس کے بعد دوسرے شہروں كی طرح راولپنڈی میں بھی پولیس اور قانون نافذ كرنے والے دوسرے اداروں نے كریك ڈاؤن كیا۔ 

تاہم پابندی كے باوجود گذشتہ تین روز كے دوران صرف راولپنڈی میں ڈور لگنے اور پتنگ بازی سے متعلق دوسرے واقعات میں كم از كم سو افراد زخمی ہو چكے ہیں۔ 

راولپنڈی كے سینٹرل پولیس آفیسر (سی پی او) عمر سعید ملك كے مطابق پتنگ بازی كے خلاف جاری كریك ڈاؤن میں 1600 پولیس اہلكار حصہ لے رہے ہیں، جس دوران اب تک 700 سے زائد افراد كو گرفتار كیا گیا اور ایك لاكھ پتنگیں ضبط كی جا چكی ہیں۔ 

ایك سینیئر پولیس افسر نے انڈپینڈنٹ اردو كو بتایا كہ اس وقت راولپنڈی شہر كے تقریباً ہر تھانے كی حوالات نوجوانوں سے بھری پڑی ہیں، جن كو پتنگ بازی پر لگی پابندی كی خلاف ورزی پر اٹھایا گیا۔ 

ترجمان راولپنڈی پولیس سجاد الحسن نے ہفتے کو بتایا کہ پولیس نے گذشتہ 24 گھنٹوں میں 273 مقدمات درج کرتے ہوئے 325 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ہزاروں پتنگیں، ڈوریں، اسلحہ، سامان آتش بازی، ساؤنڈ سسٹم اور دیگر اشیا قبضے میں لی ہیں۔
سی پی او عمر سعید نے ایك ویڈیو بیان میں پتنگ بازی اور اس كے نتیجے میں ہونے والے حادثات سے بچنے كے لیے والدین كے كردار كو اہم قرار دیا۔

’پولیس تو اپنا كام كر رہی ہے لیكن ان والدین كا بھی كردار اہم ہے جن كے بچے پتنگ بازی میں ہیں، یہ خونی كھیل ہے، اپنے بچوں كو اس سے دور ركھیں۔‘

سوشل میڈیا پر شیئر كیے گئے ایك  ویڈیو كلپ میں دیكھا جا سكتا ہے كہ پولیس اہلكار گرفتار ہونے والے پتنگ بازوں كو پتنگیں ان كے سروں پر ركھ كر تھانے میں داخل كر رہی ہے۔

راولپنڈی پولیس نے اس مرتبہ پتنگ بازی كی حوصلہ شكنی كے لیے ڈرونز  كے علاوہ دوسری ڈیجیٹل ٹیكنالوجی كا استعمال كیا ہے۔ 

سینیئر پولیس اہلكار ان دنوں شہر میں بلند مقامات سے دوربینوں كی مدد سے پتنگ اڑانے والوں كا سراغ لگاتے رہے۔ 

پتنگ بازی كیوں خطرناك ہے؟ 

پتنگ بازی بادی النظر میں ایك بے ضرر سی سرگرمی لگتی ہے۔

تاہم گذشتہ دو تین عشروں كے دوران اس تاریخی اور ثقافتی كھیل نے ایك خونی شكل اختیار كر لی ہے، جس كے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں ضائع اور ہزاروں لوگ زخمی ہو چكے ہیں۔ 

پتنگ بازی میں سب سے خطرناك عنصر اس مخصوص دھاگے كا ہے جسے ڈور یا مانجا کہتے ہیں۔

اس ڈور کو مضبوط بنانے كے لیے شیشے كے باریك ٹكڑے اور كیمیكلز استعمال كیے جاتے ہیں، جس كی وجہ سے یہ ایك تیز دھار آلے كی شكل اختیار كر جاتی ہے اور انسانی جسم كے كسی بھی نرم حصے كو آسانی سے كاٹ سكتی ہے۔ 

ڈور یا مانجے كو مزید مضبوط بنانے كے لیے اس میں دھاگے كے بجائے باریك دھاتی تار كا استعمال كیا جاتا ہے، جو مزید خطرناك اور جان لیوا شكل اختیار كر لیتی ہے۔ 

پاكستان كے مختلف شہروں خصوصاً لاہور میں پتنگ كی ڈور سے گلا كٹنے كے کئی واقعات رپورٹ ہو چكے ہیں، جن سے اموات بھی ہوئیں۔ 

خصوصاً موٹر سائیكل سوار نیچے آتی ڈور كا زیادہ آسانی سے شكار ہو سكتے ہیں۔ 

گھروں اور دوسری عمارتوں كی چھتوں پر چڑھ كر پتنگ بازی كرنا بھی ایك خطرناك كام ہے، جس کی وجہ سے کئی بچے نیچے گر کر زخمی یا ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس طرح كٹی ہوئی پتنگوں كو لوٹنے كے لیے اكثر بچے ان كے پیچھے بھاگتے ہیں اور نتیجتاً ٹریفک حادثوں کا سبب ن جاتے ہیں۔

پتنگ بازی خصوصاً بسنت كے موسم میں ہوائی فائرنگ بھی جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

معاشرتی مخالفت 

ان حادثون کی وجہ سے اس کھیلے کے خلاف عوامی مخالفت بڑھی ہے۔ راولپنڈی كی زینب عباسی كہتی ہیں كہ پتنگ جیسے خونی كھیل سے ہر سال کئی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ایسے كھیل كو كوئی كیسے پسند كر سكتا ہے؟ اس كی بھرپور مخالفت ہونا چاہیے۔‘ 

پتنگ بازی كی معاشرتی مخالفت كے باعث راولپنڈی میں چند نوجوانوں نے انسداد پتنگ بازی رضاكار (Anti Kite Flying Volunteers) كے نام سے ایك تنظیم بنائی ہے۔ 

تنظیم كے روح رواں یاسر فاروق عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا كہ ان كا واحد مقصد پتنگ بازی كی حوصلہ شكنہ كرنا ہے۔ ’ہم اس وقت تك ایسا كرتے رہیں گے جب تك یہ لعنت ختم نہیں ہو جاتی۔‘ 

انہوں نے كہا اس سلسلے میں عوام میں شعور پیدا كرنے كی كوشش كر رہے ہیں اور خصوصاً والدین كو اپنے بچوں كو اس كھیل سے دور ركھنے كا كہہ رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا