ٹرمپ کے ’بِگ، بیوٹی فل بل‘ کو اصل خطرہ ایلون مسک سے نہیں

جون سوپل لکھتے ہیں کہ اس قانون سازی سے امریکی خسارے میں 30 کھرب ڈالر کا اضافہ، امیروں کے لیے ٹیکس میں کٹوتی اور غریب ترین لوگوں کے لیے فوائد اور صحت کی دیکھ بھال میں کمی ہو جائے گی۔ ٹرمپ شاید ابھی تو برتری حاصل کر رہے ہیں، لیکن آگے ان کے لیے خطرات ہیں۔

ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک 30 مئی، 2025 کو واشنگٹن میں واقع وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں (اے ایف پی)

لکڑی کے ہتھوڑے کی ضرب سے پیدا ہونے والی کی آواز کے ساتھ امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو وہ حیران کن کامیابی دی، جو وہ چاہتے تھے۔

انہوں نے کسی بھی رپبلکن رکن کانگریس، خواہ وہ مرد ہو یا خاتون، کو صدر کی خواہش کے خلاف جانے کا سوچنے پر بھی ڈرا دھمکا کر خاموش کروا دیا۔

آپ صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ واشنگٹن سے 3000 ہزار میل دور مشرق میں واقع ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک شخص اس صورت حال کو بے بسی کے ساتھ حسرت سے دیکھ رہا تھا کیوں کہ یہ ہفتہ واقعی دو شہروں کی کہانی بن گیا۔

لندن میں وزیراعظم کیئر سٹارمر کو یہ ذلت برداشت کرنا پڑی کیوں کہ ان کے اپنے ہی ارکانِ پارلیمان بار بار ان کی اتھارٹی کی دھجیاں اڑا رہے تھے، جیسے کہ وہ اندرون لندن کے کسی سکول کے بے بس عارضی استاد ہوں، جنہیں محض مخصوص دن کے لیے بلایا گیا ہو۔

ارکانِ پارلیمنٹ نے ویلفیئر بل میں ایک کے بعد ایک رعایت منوائی۔ یہاں تک کہ بل اس قدر کمزور ہو گیا کہ ہمارے خسارے میں اضافے کو روکنے کے لیے اضافی پانچ ارب پاؤنڈ کی ضرورت پڑے گی۔

جب کہ واشنگٹن ڈی سی میں صدر کا ’ون بِگ، بیوٹی فل بل‘ یا ’او بی بی بی‘ امریکی خسارے میں حیران کن، چونکا دینے والا، ہوش ربا اور پریشان کن 30 کھرب ڈالر کا اضافہ کرے گا، اس کے باوجود قانون سازوں نے زیادہ ہچکچاہٹ کے بغیر یہ فیصلہ کیا کہ ٹرمپ کو خوش رکھنا اس قانون سازی سے جڑے بڑے معاشی خطرات کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس تمام معاملے میں ایک مضبوط مخالف قوت بھی موجود تھی اور وہ ایلون مسک تھے۔ ’او بی بی بی‘ ہی وہ وجہ بنا جس پر ان کے اور ٹرمپ کے درمیان شدید نوعیت کے جھگڑے کا آغاز ہوا، جب اس ٹیکنالوجی ٹائیکون نے اس بل کی معاشی بد انتظامی پر شدید تنقید کی۔

صرف یہی نہیں، ایلون مسک نے اس بل کے حق میں ووٹ دینے والے کسی بھی رپبلکن قانون ساز کو دھمکی بھی دے ڈالی۔ یہاں تک کہ ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی دھمکی بھی دی تاکہ رپبلکنز کو عملاً ختم کیا جا سکے۔

بل کی منظوری کے بعد ہمیں کم از کم اس سوال کہ ’آپ سب سے زیادہ کس سے ڈرتے ہیں؟ دنیا کے امیر ترین شخص (ایلون مسک) سے یا دنیا کے طاقتور ترین شخص (ٹرمپ) سے؟‘ کا جواب مل گیا۔ اس جنگ میں ٹرمپ کی جیت ہوئی۔

رپبلکن پارٹی کے ڈرپوک ارکان نے مسک کے غصے کو مول لینا زیادہ پسند کرنا تھا، بہ نسبت ٹرمپ کے قہر کے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ٹیسلا کے مالک (ایلون مسک) اپنے وعدے کے مطابق ان ارکان کے خلاف الیکشن میں امیدار کھڑے کریں گے جنہوں نے صدر کے بل کی حمایت کی، بشرطیکہ انہیں موقع ملا، کیوں کہ ٹرمپ نے اس ہفتے کہا تھا کہ وہ ایلون مسک کو ملک بدر کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ قانون سازی آخر ہے کیا جس پر اب خوب دھوم دھام کے ساتھ دستخط ہوں گے؟ سب سے پہلے تو یہ وہ کام ہے جسے امریکہ میں ’کمپنڈیم بل‘ یا ’اومنی بس بل‘ کہا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک معاملے سے متعلق قانون نہیں۔ یہ بہت وسیع ہے۔

یہ ایک دیوہیکل قانون سازی ہے۔ یہ امریکہ کے امیر ترین لوگوں کے لیے ٹیکس میں کمی لائے گی۔ اس میں بارڈر سکیورٹی اور پینٹاگون کو فنڈز منتقل کرنے کی شقیں بھی شامل ہیں۔ یہ امریکہ کے غریب ترین لوگوں سے صحت کی سہولت اور سکول میں مفت کھانا چھین لے گا۔ اسے الٹا رابن ہڈ اصول سمجھیں، یعنی یہ غریبوں سے چھین کر امیروں کو دیتا ہے۔

آئیے کچھ اقدامات دیکھ لیتے ہیں۔ یہ بل طبی مالی امداد میں کٹوتی کر کے ایک کروڑ 70 لاکھ امریکیوں سے صحت کی سہولت چھین لے گا۔ طبی مالی امداد وفاقی حکومت کا وہ پروگرام ہے، جو امریکہ کے غریب ترین لوگوں کو صحت کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ یہ بل اُن بڑی عمر کے افراد کے لیے صحت کا انشورنس پریمیم بھی بڑھا دے گا، جو ’اوباما کیئر‘ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

یہ تین کروڑ امریکیوں سے غذائی امداد چھین لے گا اور ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ بچوں کے لیے سکول میں کھانے کی سہولت ختم کر دے گا۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ٹیکس میں کمی کی جائے، جس کا فائدہ صرف امریکی معاشرے کے امیر ترین لوگوں کو پہنچے گا۔

کچھ میگا (میک امریکہ گریٹ اگین) حامیوں نے پارٹی سے اختلاف کیا۔ میزوری سے ٹرمپ کے پرجوش حامی سینیٹر جوش ہاؤلی نے طبی مالی امداد میں کٹوتیوں کے خلاف بھرپور انداز میں بات کی اور بتایا ہے کہ اس سے ان کی ریاست کے لوگ کتنے متاثر ہوں گے۔

جب عملی طور پر ووٹنگ کا وقت آیا تو انہوں نے کیا کیا؟ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں؟ کیا آپ کو ایک اور اشارے کی ضرورت ہے؟

یا الاسکا سے تعلق رکھنے والی ’معتدل‘ رپبلکن رکن لیزا مرکاؤسکی کا کیا کہنا ہے؟ وہ اپنی بات میں اتنی پراثر تھیں جتنی ہو سکتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بل امریکیوں کے بہترین مفاد میں نہیں۔ اس میں سنگین خامیاں ہیں اور اسے محض صدر کی مقرر کردہ یکم جولائی کی من مانی ڈیڈ لائن پر پورا کرنے کے لیے تیزی سے منظور کیا جا رہا ہے۔ یہ بل اپنی موجودہ شکل میں منظور کیے جانے کے قابل نہیں۔ اور ہاں، آپ نے صحیح اندازہ لگایا۔ انہوں نے بھی سینیٹر ہاؤلی کی طرح اس کے حق میں ووٹ دیا۔

بل کے حق میں ووٹ دینے کے بعد اپنے عجیب خود ساختہ وضاحتی بیان میں سینیٹر مرکاؤسکی نے کہا کہ ’میری مخلصانہ امید ہے کہ یہ حتمی شکل نہ ہو۔ اس بل پر دونوں ایوانوں میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صدر کے دستخط کے لیے تیار نہیں۔ ہمیں اسے درست کرنے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا۔‘

لیکن ظاہر ہے اس کے حق میں ووٹ دے کر انہوں نے یقینی بنایا کہ یہ بل سیدھا اوول آفس میں ریزولیوٹ ڈیسک پر دستخط کے لیے پہنچ جائے۔

البتہ شمالی کیرولائنا کے سینیٹر تھام ٹلس کی تعریف بنتی ہے، جنہوں نے نہ صرف اس بل پر سخت تنقید کی بلکہ یہ بھی اعلان کیا کہ وہ دوبارہ انتخاب نہیں لڑیں گے۔ انہیں اتنی زیادہ نفرت ہو چکی ہے۔ چند دوسرے رپبلکن سینیٹرز نے بھی صدر سے اختلاف کیا۔

تاہم یہ قانون سازی میں ٹرمپ کی بڑی کامیابی اور ان تمام ارب پتیوں کے لیے بھی خوشخبری ہے جنہوں نے ان کی حمایت کی اور ان کی انتخابی مہم کے لیے چندہ دیا اور جو اب مزید کم ٹیکس ادا کریں گے۔

لیکن کیا یہ دو باتوں کو خلط ملط کرنا نہیں؟ دولت مند عطیہ دہندگان کی مالی طاقت نے شاید ٹرمپ کو منتخب ہونے میں مدد دی ہو، لیکن یہی کروڑوں عام امریکی تھے یعنی ریکارڈ تعداد میں محنت کش، جنہوں نے انہیں منتخب کر کے وائٹ ہاؤس پہنچایا۔ وہ اس بارے میں کیسا محسوس کریں گے؟ ایک مؤثر ڈیموکریٹک پارٹی (اگرچہ یہ جملہ کچھ متضاد سا لگتا ہے) اس موقعے سے فائدہ اٹھا رہی ہوتی یا اسے اٹھانا چاہیے تھا۔

تاہم ایک اور بات بھی ہے، اور وہ ہے وقت کا انتخاب۔ ٹیکس میں کمی فوراً نافذ ہو جائے گی اور ہاں، اگرچہ امیر ترین لوگ سب سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے لیکن متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے امریکی شہریوں کو بھی کچھ فائدہ پہنچے گا۔

لیکن طبی مالی امداد وغیرہ میں سیاسی طور پر خطرناک کٹوتیاں ملتوی کر دی گئی ہیں اور یہ 2027 کے آغاز میں لاگو ہوں گی، یعنی نومبر کے وسط مدتی انتخابات کے فوراً بعد، جن میں ٹرمپ کی دونوں ایوانوں پر گرفت داؤ پر لگی ہو گی۔ موجودہ وائٹ ہاؤس بے وقوف نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر