کیا جنگیں ختم کروانا واقعی امریکہ کے مفاد میں ہے؟

ایک طرف ٹرمپ امن کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف وہ ہتھیاروں اور تیل کی کمپنیوں کو فروغ دینے کے بھی حامی ہیں، تو ایسے میں عالمی سطح پر پائیدار امن کیسے ممکن ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 15 اگست 2025 کو روسی صدر ولادی میر پوتن کے ساتھ یوکرین کے بارے میں امریکہ-روس سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد الاسکا کے جوائنٹ بیس ایلمینڈورف-رچرڈسن سے روانہ ہونے سے قبل ایئر فورس ون میں سوار ہوتے ہوئے لہراتے ہیں (اینڈریو کیبلیرو-رینولڈز / اے ایف پی)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پوتن کے درمیان الاسکا میں ساڑھے تین گھنٹے طویل ملاقات ہو گئی، جس کا دنیا بھر میں چرچا تھا، مگر اس سے وابستہ توقعات ناکام رہیں اور بظاہر دونوں رہنما اس سے خالی ہاتھ لوٹے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار میں آنے سے پہلے ہی یہ دعویٰ تھا کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو فوری طور پر رکوا دیں گے، لیکن اب تک ان کا یہ دعویٰ خالی خولی نکلا ہے۔

انہوں نے اس سے پہلے پاکستان اور انڈیا، اسرائیل اور ایران، کمبوڈیا اور تھائی لینڈ، آذربائیجان اور آرمینیا اور کچھ افریقی ممالک کے درمیان بھی مصالحت کروا کے امن کا راستہ ہموار کیا ہے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ کیا جنگ سے جڑے معاشی مفادات کے مسئلے کو حل کیے بغیر عالمی طور پر مستقل اور پائیدار امن قائم کیا جا سکتا ہے؟

کئی مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی معیشت کا ایک بڑا حصہ جنگ پر انحصار کرتا ہے۔ جنگی معیشت پر بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ صرف امریکہ نے 1945 سے لے کر اب تک 240 کھرب ڈالرز دفاع، جنگ اور اس سے منسلک چیزوں پر خرچ کیے ہیں۔

عالمی دفاعی اخراجات گذشتہ برس دوہزار سات سو اٹھارہ ارب ڈالرز کے تھے۔ دنیا بھر کی افواج روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ یہاں تک کہ وال مارٹ اور دوسری بڑی امریکی و مغربی کمپنیاں بھی روزگار فراہم کرنے میں ان کے بعد آتی ہیں۔ 

برطانیہ کی تجارتی تاریخ کے دو بڑے معاہدے ہتھیاروں سے متعلق ہی تھے، جس کی وجہ سے برٹش ایروناٹیکل انجینیئرنگ اور دوسری ہتھیار ساز کمپنیوں نے نہ صرف یہ کہ بڑے پیمانے پر منافع کمایا بلکہ ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے۔

 

ہتھیاروں کے یہ تجارتی معاہدے سابق برطانوی وزرائے اعظم مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر کی حکومتوں کے دوران ہوئے۔

امریکہ کی تاریخ میں بھی جو بڑے تجارتی معاہدے ہوئے، اس میں ایک بڑا معاہدہ کسی حد تک ہتھیاروں سے متعلق ہی تھا، جو صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں سعودی عرب کے ساتھ ہوا جبکہ صدر اوباما کے دور میں بھی ہتھیاروں کے اس طرح کے معاہدے ہوتے رہے۔

ایک اندازے کے مطابق اگلے کچھ عشروں میں انڈیا 100 ارب ڈالرز سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہتھیار یا دفاع سے متعلق کرے گا اور اس میں بھی اسے مغربی کمپنیوں کی معاونت حاصل ہو گی۔

کئی مفکرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور مغرب کی معیشت کا ایک بڑا حصہ جنگ، دفاع اور ہتھیاروں سے جڑا ہوا ہے۔

مشہور امریکی مورخ ہاورڈ زن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب 1930 کی دہائی میں امریکہ میں شدید معاشی بحران آیا، تو امریکی صدر روز ویلٹ نے نیو ڈیل کے نام سے ایک معاشی پروگرام شروع کیا، جس کا مقصد لوگوں کو روزگار فراہم کرنا اور معیشت کو بہتر کرنا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاشی پروگرام کی وجہ سے کئی لاکھ امریکیوں کو روزگار ملا لیکن ہاورڈ زن کہتے ہیں کہ جنگ امریکی معیشت کے لیے اتنی اہم ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہر امریکی کو روزگار ملا۔

امریکی معیشت نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی بھی دو عالمی جنگوں کے دوران یا اس کے بعد کے ان ادوار میں کی، جن میں یورپ اور دوسرے خطے جنگوں کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے۔

1945 کے بعد بھی دنیا میں 248 سے زیادہ بڑی یا چھوٹی موٹی جنگیں ہو چکی ہیں، جس میں کروڑوں کی تعداد میں لوگوں کی اموات ہوئی ہیں یا انہیں زخمی کیا گیا ہے جبکہ بڑے پیمانے پہ لوگ دربدر بھی ہوئے۔

یہ ہولناکیاں دوسری عالمی جنگ کی وحشت ناکیوں کے بعد ہوئیں، جس میں آٹھ کروڑ سے زیادہ لوگوں کی اموات ہو ئیں، کرڑوں زخمی ہوئے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی۔

امن کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ جب تک دنیا میں ہتھیار بنتے رہیں گے، اس وقت تک جنگیں ہوتی رہیں گی۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ دنیا میں متحرب ریاستوں کو ہتھیار تمام مغربی قوتیں فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ روس، چین اور اسرائیل بھی اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔

کچھ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ ہتھیاروں کے علاوہ تیل کی کمپنیاں بھی جنگی معیشت سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ ایک لڑاکا طیارہ ایک گھنٹے میں اتنا تیل خرچ کر سکتا ہے جتنا کہ ایک الیکٹرک کار پورے سال میں بھی نہ کر سکے۔ دنیا بھر کی فوجیں اور پینٹاگون آج تیل کے سب سے بڑے صارف ہیں۔

اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ جدید دور میں خود سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کا ایک بڑا پلیٹ فارم بن گئی ہے۔

 جب تین لاکھ امریکی فوجی کسی خطے میں جاتے ہیں، تو ان کے ساتھ نو لاکھ برگرز، نو لاکھ سوفٹ ڈرنکس کی بوتلیں اور سینکڑوں دوسری اشیا بھی لاکھوں کی تعداد میں جاتی ہیں۔

جنگ کے بعد تعمیر نو میں بھی معیشت کا عنصر کار فرما ہے۔ مثال کے طور پر یوکرین کی جنگ میں پانچ سو ارب ڈالرز اور شام کی خانہ جنگی میں ڈیڑھ سو ارب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان ہوا۔

جنگ کے بعد ممالک میں تعمیرِ نو ہوتی ہے، جس سے مغربی کمپنیاں بہت فائدہ اٹھاتی ہیں، جیسے عراق کی جنگ کے بعد امریکی اور مغربی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر امریکی صدر دنیا میں مستقل امن چاہتے ہیں تو وہ امریکی اور مغربی ہتھیار ساز کمپنیوں کے ساتھ مل کر ایک ایسی پالیسی بنائیں جس کی بنیاد پر ہتھیاروں کی ان کمپنیوں کی ٹیکنالوجی کو سویلین مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور دنیا بھر کے ممالک جو کھربوں ڈالرز ہتھیار اور جنگوں پر خرچ کر رہے ہیں، اسے بھوک و افلاس ختم کرنے اور عام آدمی کا معیارِ زندگی بلند کرنے پر لگایا جائے۔

ایک طرف ٹرمپ امن کے لیے کام کر رہے ہیں لیکن دوسری طرف وہ ہتھیاروں اور تیل کی کمپنیوں کو فروغ دینے کے بھی حامی ہیں، تو ایسے میں عالمی سطح پر پائیدار امن کیسے ممکن ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر