رواں سال مارچ میں ماریشس کے دورے کے دوران انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے انڈیا کے نئے سمندری وژن ’مہاساگر‘ (MAHASAGAR) کا اعلان کیا، جس کا مطلب سنسکرت میں ’سمندر‘ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ مخفف ’خطوں میں سلامتی اور ترقی کے لیے باہمی اور ہمہ گیر پیش رفت‘ (Mutual and Holistic Advancement for Security and Growth Across Regions) کے لیے استعمال کیا گیا ہے، البتہ اس وژن میں شامل جغرافیائی حدود کی کوئی واضح وضاحت نہیں کی گئی۔
دس سال قبل مودی نے موریشس ہی میں اپنے پہلے سمندری وژن ’ساگر‘ (SAGAR) یعنی ’خطے میں سب کے لیے سلامتی اور ترقی‘ کی وضاحت کی تھی۔ اب انہوں نے بحر ہند کے پانیوں اور ممکنہ طور پر اس سے آگے انڈیا کے کردار کے لیے ایک تازہ ترین اور پہلے سے بھی زیادہ بلند نظر منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
بحر ہند کی اہمیت اور انڈیا
انڈیا بحر ہند کے مرکز میں واقع ہے۔ 7,500 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی، 12 بڑی بندرگاہوں، 200 سے زائد چھوٹی بندرگاہوں اور کئی سو جزائر کے ساتھ، انڈیا کے مفادات سمندر سے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ یہی سمندر اس کی دو طرفہ تجارت کا 90 فیصد (بشمول توانائی کی درآمدات) لے کر جاتا ہے۔
اس کے علاوہ پچھلی دو دہائیوں میں انڈیا نے خلیج عدن اور صومالیہ کے ساحل پر قزاقی کے بڑھتے ہوئے واقعات، نومبر 2008 میں ممبئی میں ہونے والے خوفناک حملوں سے قبل سمندر کے راستے دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور سمندر میں بین الاقوامی بحری افواج کے بڑھتے ہوئے دائرہ اثر کو تشویش کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
’ساگر‘ انڈیا کی طرف سے ایک ایسی سمندری حکمت عملی پیش کرنے کی پہلی کوشش تھی، جو بحر ہند میں اس کے مفادات کی وضاحت کرے اور اس کی پالیسی کے نقطہ نظر کو بیان کرے۔ اس فریم ورک کے تحت انڈیا نے عمان، سیشلز، ماریشس اور آسٹریلیا کے ساتھ بندرگاہوں تک رسائی اور امریکہ کے ساتھ لاجسٹک سپورٹ کے معاہدے کیے، جس سے دونوں ممالک کی بحری افواج کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ ملا۔
’کواڈ‘ (Quad) بحری اتحاد میں انڈیا کے شراکت داروں، امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا، نے بھی انڈین ساحل پر ’مالابار‘ بحری مشقوں میں شمولیت اختیار کی۔ یوں ’ساگر‘ نے انڈیا کی حکمت عملی میں ’سمندروں کے استعمال‘ سے ’سمندروں کے تحفظ‘ کی طرف منتقلی کی نشاندہی کی۔
نیا ’مہاساگر‘ ڈاکٹرائن کیا ہے؟
نیا ’مہاساگر‘ نظریہ مواد اور اپنے علاقائی عزائم کی وسعت، دونوں لحاظ سے ’ساگر‘ کی کامیابیوں پر استوار ہے۔
اول، یہ بحران کے وقت انڈیا کو ایک قابل اعتماد ’فرسٹ ریسپانڈر‘ (پہلے ردعمل دینے والے) اور ساحلی ریاستوں کے لیے ایک ترجیحی سکیورٹی پارٹنر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ ایک مضبوط اور زیادہ متنوع سکیورٹی کردار کا تصور پیش کرتا ہے، جس میں مختلف شراکت داروں کے ساتھ مزید مشقیں، زیادہ دفاعی تعاون، انٹیلی جنس کا تبادلہ اور غیر روایتی خطرات سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون شامل ہے۔
دوم، یہ اقتصادی تعاون میں توسیع کا تصور پیش کرتا ہے، جس میں نئی سپلائی چین نیٹ ورکس اور شراکت دار ممالک کے ساتھ بحری انفراسٹرکچر، قابل تجدید توانائی، موسمیاتی تبدیلی اور آفات سے نمٹنے میں صلاحیت سازی شامل ہے۔ آخر میں، اس میں ’سافٹ پاور‘ کا بڑھتا ہوا استعمال شامل ہے، جیسے کہ پورے خطے میں تعلقات کو بڑھانے کے لیے تعلیمی، ثقافتی اور تکنیکی تعاون کا فروغ۔
’مہاساگر‘ کا ایک فوری نتیجہ ’افریقہ-انڈیا کی میری ٹائم انگیجمنٹ‘ کی صورت میں سامنے آیا ہے، جس کے تحت انڈیا نے اپریل میں 10 افریقی ممالک کے ساتھ بحری مشقیں کیں، جس کے بعد افریقی اور جنوبی ایشیائی بحری افواج پر مشتمل نگرانی کے مشنز، خصوصی اقتصادی زونز میں مشترکہ گشت اور تربیتی و انسانی ہمدردی کی مشقیں کی گئیں۔
چیلنج اور حقائق
تاہم ایک نئے بحری اقدام کے طور پر ’مہاساگر‘ کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ فی الحال یہ محض ایک ’وژن‘ ہے۔ اس کی کوئی آپریشنل اہمیت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اسے طویل مدتی حکمت عملی کی شکل دی جائے، جس میں مختلف سٹیک ہولڈرز کے درمیان مشاورت کے ذریعے تفصیلی اور وقت کے پابند ایکشن پلان تیار کیے جائیں۔
اس میں سب سے بڑھ کر ان جغرافیائی حدود کی وضاحت شامل ہو گی، جن کے اندر اس وژن پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ نیا نظریہ ’گلوبل ساؤتھ‘ کا احاطہ کرتا ہے، لیکن اس کی آپریشنل سپیس کو لچکدار رہنا چاہیے اور جیو سٹریٹجک منظرنامے میں تبدیلیوں کے ردعمل میں پھیلنا چاہیے۔
یہ نقطہ نظر بہت زیادہ مبہم ہے۔ انڈیا کو ایک ترجیحی سکیورٹی پارٹنر کے طور پر قبول کیے جانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس دائرہ کار کی وضاحت کی جائے جس کے اندر ’مہاساگر‘ کو فعال کیا جائے گا اور انڈین بحریہ کو (بطور نفاذ کرنے والی اتھارٹی) اس علاقے میں ایک واضح کردار سونپا جائے اور اسے مناسب وسائل فراہم کیے جائیں۔
’گلوبل ساؤتھ‘ اگرچہ ایک پرکشش اصطلاح ہے، لیکن ایک مؤثر بحری کردار کے لیے بطور میدانِ عمل بہت ہی مبہم، غیر منظم اور گہری تقسیم کا شکار ہے۔ ان ابتدائی دنوں میں یہ سمجھداری ہو گی کہ نئے اقدام کی آپریشنل سپیس کو بحر ہند اور اس کے ساحلی علاقوں تک محدود رکھا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اپنے شراکت داروں کے درمیان ساکھ کھونے سے بچنے کے لیے انڈیا کو اپنی خواہشات اور صلاحیتوں کے درمیان فرق کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ اگرچہ اس کی بحری صلاحیت نے پچھلی دو دہائیوں میں قابل ذکر ترقی دیکھی ہے، لیکن یہ ابھی بھی اس ’ترجیحی علاقائی سکیورٹی پارٹنر‘ کے طور پر ابھرنے سے بہت دور ہے جسے ’مہاساگر‘ اپنی حتمی کامیابی کے طور پر دیکھتا ہے۔ جبکہ اس کی صلاحیتیں ارتقا پذیر ہیں، حقیقت سے عاری بلند بانگ دعووں کے بجائے انکساری کی ایک خوراک زیادہ عملی نقطہ نظر ثابت ہو گی۔
مزید برآں، مغربی ممالک کے ساتھ شراکت داری کے بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ انڈین بحری امور کے مبصر انوپ ورما نے نوٹ کیا ہے، انڈیا کے لیے مغربی ممالک کی بحری حمایت ’مشروط، منتخب اور ان کے اپنے وسیع تر سٹریٹجک ایجنڈوں کے مطابق‘ ہے۔ انڈیا کو اپنی سٹریٹجک خودمختاری پر ہونے والی تجاوزات کے بارے میں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہوگی۔
آخر میں یہ ذہن میں رکھا جانا چاہیے کہ ’مہاساگر‘ متنوع شعبوں، سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی، میں شراکت داری کا تصور پیش کرتا ہے۔ لہذا، سکیورٹی مسائل سے آگے بڑھنے اور تعلیمی و ثقافتی تبادلوں کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور تکنیکی مصروفیات کو آگے بڑھانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک جرات مندانہ اور ولولہ انگیز وژن ہے جو بحر ہند کے مسابقتی میدان میں انڈیا کے مفادات کے حصول کے لیے آگے کی راہ متعین کرتا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے پالیسی اقدامات اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ وژن محض بیان بازی سے آگے بڑھے اور مؤثر طریقے سے انڈیا اور خطے کے مفادات کی خدمت کرے۔
بشکریہ عرب نیوز
کالم نگار تلمیذ احمد سابق انڈین سفارت کار ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔