ایشیا پیسیفک میں ’نیٹو جیسے‘ فوجی اتحاد کے خلاف چین کا انتباہ

سنگاپور میں ’شنگری لا ڈائیلاگ‘ سےخطاب میں چینی وزیر دفاع لی شانگ فو نےکہا:’ایشیا پیسیفک میں نیٹو جیسا اتحاد قائم کرنے کی کوششیں علاقائی ممالک کو اغوا کرنے اور تنازعات کوبڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا ایک طریقہ ہے،جس سے یہ خطہ تنازعات کے بھنور میں آ جائے گا۔‘

چین کے وزیر دفاع لی شانگ فو نے اتوار کو ایشیا پیسیفک کے علاقے میں ’نیٹو جیسے‘ فوجی اتحاد قائم کرنے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اتحاد خطے کو تنازعات کے ’بھنور‘ میں دھکیل دیں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنگاپور میں ایشیا کے اعلیٰ ترین سکیورٹی سربراہی اجلاس ’شنگری لا ڈائیلاگ‘ سے خطاب میں چینی وزیر دفاع کا کہنا تھا: ’مختصر بات یہ ہے کہ ایشیا پیسیفک میں نیٹو جیسے اتحاد کو قائم کرنے کی کوششیں علاقائی ممالک کو اغوا کرنے اور تنازعات اور تصادم کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا ایک طریقہ ہے، جس سے صرف یہ ہو گا کہ یہ خطہ تنازعات اور لڑائیوں کے بھنور میں آ جائے گا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’آج کے ایشیا پیسیفک کو کھلے اور جامع تعاون کی ضرورت ہے۔ اسے چھوٹے چھوٹے گروپوں میں نہیں بٹنا چاہیے۔ ہمیں دو عالمی جنگوں کی وجہ سے تمام ممالک کے لوگوں کو درپیش آنے والی مشکلات کو نہیں بھولنا چاہیے اور ہمیں یہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ ایسی المناک تاریخ اپنے آپ کو دہرائے۔‘

وزیر دفاع لی نے واضح طور پر کسی ملک کا نام نہیں لیا، تاہم اے ایف پی کے مطابق وہ یہاں بظاہر امریکہ کا حوالہ دے رہے تھے جو خطے میں اتحادوں اور شراکت داریوں کو فروغ دے رہا ہے۔

امریکہ اے یو کے یو ایس (اوکس) اتحاد کا رکن ہے۔ اوکس آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے درمیان سہ فریقی سیکورٹی معاہدہ ہے جس کا اعلان 15 ستمبر 2021 کو ہندبحرالکاہل کے علاقے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت امریکہ اور برطانیہ جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوزوں کے حصول میں آسٹریلیا کی مدد کریں گے۔

اسی طرح واشنگٹن کواڈ گروپ کا بھی رکن ہے جس میں آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان شامل ہیں۔ یہ چار ممالک پر مشتمل باضابطہ سکیورٹی اتحاد ہے جس میں امریکہ، آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان شامل ہیں۔ ان ملکوں کے درمیان سمندری تعاون 2004 کے بحر ہند کے سونامی کے بعد شروع ہوا تھا، لیکن اب یہ گروپ وسیع تر ایجنڈے پر کام کر رہا ہے، جس میں سلامتی، اقتصادی اور صحت کے مسائل سے نمٹنا شامل ہے۔

’چین محاذ آرائی پر بات چیت کے لیے تیار‘

چینی وزیر دفاع لی شانگ فو کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایشیا بحرالکاہل کے علاقے میں سرد جنگ والی سوچ دوبارہ ابھر رہی ہے اور ان کا ملک محاذ آرائی پر بات چیت کرنا چاہتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ’شنگری لا ڈائیلاگ‘ سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیر دفاع نے کسی حد تک ڈھکے چھپے الفاظ میں امریکہ پر تنقید کی اور الزام لگایا کہ ’کچھ ممالک‘ ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز کر رہے ہیں اور دوسرے ملکوں کے اندرونی معاملات میں جان بوجھ کر مداخلت کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’سرد جنگ والی ذہنیت اب دوبارہ سر اٹھا رہی ہے جس سے سکیورٹی کے خطرات بہت زیادہ بڑھ رہے ہیں۔ باہمی احترام کو دھونس اور اجارہ داری پر غالب آنا چاہیے۔‘

امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن نے ہفتے کو سکیورٹی اجلاس سے خطاب میں فوجی مذاکرات سے انکار پر چین کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

چین کے انکار کی وجہ سے جمہوری طرز حکمرانی والے ملک تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں علاقائی تنازعات پر سپرپاورز کے درمیان تعطل کی صورت حال ہے۔

تائیوان کے معاملے، بحیرہ جنوبی چین اور سیمی کنڈکٹر چِپ کی برآمد پر صدر جو بائیڈن کی پابندیوں سمیت کئی معاملات پر واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

روس سے ہتھیاروں کی خریداری پر 2018 میں امریکہ نے لی شانگ فو پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے جمعے دیے گئے عشایئے میں امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن سے مصافحہ کیا لیکن مزید فوجی تبادلے کے مسلسل امریکی مطالبات کے باوجود دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کے درمیان تفصیلی بات چیت نہیں ہوئی۔

کانفرنس کے موقعے پر نجی طور پر بات کرتے ہوئے دو چینی فوجی افسروں نے کہا کہ بیجنگ واشنگٹن سے ایشیا میں کم تصادم کی سوچ کے واضح اشارے چاہتا ہے جس میں لی کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ بھی شامل ہے، اس سے پہلے کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی سطح مذاکرات دوبارہ شروع ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا