سندھ میں ہندو خواتین کے چہروں پر ٹیٹو بنانے کی روایت کا زوال

بزرگ خواتین کی باریک سوئیوں سے چہروں، ہاتھوں اور بازوؤں پر خوبصورت ڈیزائن بنانے کی یہ روایت صدیوں پرانی ہے جو انڈیا کی سرحد کے قریب سندھ کے ہندو اکثریتی والے دیہاتوں میں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔

15 جولائی 2025 کو لی گئی اس تصویر میں اکلان جوگی کو کیمرے کے سامنے پوز دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب وہ پاکستان کے ہندو اکثریتی ضلع عمرکوٹ کی سوڈو جوگی کالونی میں اپنے چہرے پر ایک دیسی ٹیٹو سجا رہی ہے۔ بھارت کے ساتھ جنوبی سرحد پر واقع ہندو دیہاتوں میں بڑی عمر کی خواتین کی نوجوان نسلوں کے چہروں، ہاتھوں اور بازوؤں پر نازک شکلیں لگانے کا رواج صدیوں پر محیط ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں، چونکہ مسلم اکثریتی پاکستان میں دیہی ہندو کمیونٹیز قریبی شہروں سے زیادہ جڑی ہوئی ہیں، بہت سی نوجوان خواتین نے ’پرانے طریقوں‘ کو چھوڑ دیا ہے (تصویر آصف حسن/ اے ایف پی)

بکری کے دودھ کے چند قطروں میں کوئلہ پیستے ہوئے 60 سالہ بسراں جوگی، دو کم سن بہنوں کے چہروں پر پہلے ٹیٹو (جسے مقامی زبان میں ٹیچواں کہتےہیں) بنانے کی تیاری کر رہی ہیں لیکن اب یہ روایت دم توڑ رہی ہے۔

بزرگ خواتین کی باریک سوئیوں سے چہروں، ہاتھوں اور بازوؤں پر خوبصورت ڈیزائن بنانے کی یہ روایت صدیوں پرانی ہے جو انڈیا کی سرحد کے قریب سندھ کے ہندو اکثریتی والے دیہاتوں میں نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔

بسراں جوگی کہتی ہیں: ’سب سے پہلے دونوں بھنوؤں کے درمیان دو سیدھی لکیریں کھینچو۔ اب سوئی کو ان لکیروں پر آہستہ آہستہ چلاؤ، جب تک خون نہ نکل آئے۔‘

چھ سالہ پوجا تکلیف کی وجہ سے بمشکل ہی چہرے کو سیدھا رکھ پا رہی تھیں جب ان کی ٹھوڑی اور پیشانی پر دائرے اور مثلث بنائے جا رہے تھے۔

سندھ کے ضلع عمرکوٹ کے نواح میں سات سالہ چمپا پرجوش ہو کر ساتھ ہی اعلان کرتی ہیں کہ ’میں بھی اس کے لیے تیار ہوں۔‘

لیکن حالیہ برسوں میں جیسے جیسے مسلم اکثریتی ملک پاکستان کی ہندو دیہی برادریاں شہروں کی جانب منتقل ہو رہی ہیں، نوجوان خواتین نے یہ ’پرانے طریقے‘ اپنانے سے انکار شروع کر دیا ہے۔

بدین شہر میں پلی بڑھی 20 سالہ درگا پریم کہتی ہیں کہ ’یہ نشان ہمیں دوسروں سے الگ کرتے ہیں۔‘

کمپیوٹر سائنس کی طالبہ درگا نے مزید کہا: ’ہماری نسل کو یہ پسند نہیں۔ سوشل میڈیا کے دور میں لڑکیاں چہرے پر ٹیٹو سے بچتی ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ یہ نشانات انہیں دوسروں سے مختلف یا بدصورت بنا دیں گے۔‘

ان کی بہن ممتا نے بھی ایسے ٹیٹو چہرے پر بنوانے سے انکار کیا ہے جو ان کی ماں اور دادیوں کے چہروں اور بازوؤں پر موجود ہیں۔

ان کے بقول: ’اگر ہم آج بھی گاؤں میں رہ رہے ہوتے تو شاید ہمارے چہروں یا بازوؤں پر بھی یہ نشان ہوتے۔‘

بدروحوں کو بھگانے کا طریقہ

پاکستان کی 24 کروڑ آبادی میں صرف دو فیصد ہندو ہیں اور ان کی اکثریت سندھ کے دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔

مذہبی ہم آہنگی کے سرگرم حامی اور ہندو سماجی کارکن مکیش میگھواڑ کا ماننا ہے کہ نئی نسل عوامی طور پر بطور ہندو پہچانے جانے سے گریزاں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چونکہ اسلام میں ٹیٹوز کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اس لیے مسلمان بھی شاذونادر ہی ان کو اپناتے ہیں۔

میگھواڑ نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم اپنی لڑکیوں کو اس روایت پر مجبور نہیں کر سکتے، یہ ان کی پسند ہے، لیکن بدقسمتی سے، شاید ہم آخری نسل ہیں جو عورتوں کے چہرے، گلے، ہاتھوں اور بازوؤں پر یہ ٹیٹو دیکھ رہی ہے۔‘

ماہرین بشریات کے مطابق یہ ٹیٹو اس برادری کی ثقافتی وراثت کا صدیوں پرانا حصہ ہے۔

ماہر بشریات ذوالفقار علی کلہوڑو نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ علامات ان لوگوں کی ثقافت کا حصہ ہیں جن کی جڑیں وادی سندھ کی تہذیب سے جڑی ہیں۔‘

ان کے بقول: ’یہ نشان روایتی طور پر برادری کے افراد کی شناخت اور بدروحوں کو دور رکھنے کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔‘

تاہم دو کمسن بہنوں کے چہروں پر بنے ڈیزائن کو دیکھ کر بسراں جوگی نے دعویٰ کیا کہ یہ خواتین کی خوبصورتی بڑھانے والی قدیم روایت ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہم یہ کسی خاص مقصد کے لیے نہیں بناتے، یہ ایک پرانی روایت ہے جو نسل در نسل چلتی آ رہی ہے۔ یہ ہمارا شوق ہے۔‘

یہ سیاہ نشان وقت کے ساتھ سبز رنگت اختیار کر لیتے ہیں لیکن ہمیشہ کے لیے باقی رہتے ہیں۔

بچپن میں یہ ٹیٹو بنوانے والی جمنا کوہلی کہتی ہیں کہ ’یہ ہماری پہچان ہیں۔‘

40 سالہ جمنا کے بقول: ’یہ ڈیزائن میری بچپن کی سہیلی نے بنایا تھا۔ وہ چند سال پہلے فوت ہو گئی۔ جب بھی میں یہ ٹیٹو دیکھتی ہوں، مجھے وہ اور وہ پرانے دن یاد آ جاتے ہیں۔ یہ عمر بھر کی یادگار ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل