لگژری برانڈز کی نظر انڈیا پر، مگر رکاوٹیں برقرار

دنیا کی سب سے بڑے لگژری برانڈز کئی دہائیوں سے انڈیا کے وسیع صارفین تک پہنچنے کا خواب دیکھتے رہے ہیں، لیکن اس مارکیٹ میں راستہ بنانا مشکل کام ثابت ہوا ہے۔

دنیا کی سب سے بڑے لگژری برانڈز کئی دہائیوں سے انڈیا کے وسیع صارفین تک پہنچنے کا خواب دیکھتی رہے ہیں، لیکن اس مارکیٹ میں راستہ بنا پانا مشکل کام ثابت ہوا ہے۔

فرانسیسی ریٹیلر گلیریز لافایئت اس سلسلے میں اپنی قسمت آزمانے والی تازہ ترین کمپنی ہے جس نے اتوار کو انڈیا میں اپنا پہلا سٹور کھولا ہے، جو ممبئی، ملک کے مالیاتی دارالحکومت، میں واقع پانچ منزلہ وسیع و عریض آؤٹ لیٹ ہے۔

مارکیٹ میں اس کی نمایاں انٹری کو انڈیا کے بڑے کاروباری گروپ آدتیہ برلا گروپ کے فیشن ونگ کی مقامی مدد حاصل ہے۔

لگژری برانڈز کی ماہر اور پرتعیشن اشیا تیار کرنے والے برانڈز کی تنظیم کومتے کولبرت کی سی ای او بینی ڈکٹ ایپی نے، نے اس مشہور فرانسیسی ڈپارٹمنٹل سٹور کی انڈیا آمد کو ’ایک اہم قدم قرار دیا۔

انڈیا، جس کی آبادی 1.4 ارب ہے، وہی فراہم کرتا ہے جسے ایپی نے، نے ’امید افزا، لیکن اب بھی پیچیدہ مارکیٹ‘ کہا۔

برانڈز کو نہ صرف زیادہ کسٹم ڈیوٹی، پیچیدہ بیوروکریسی اور بنیادی ڈھانچے کی مشکلات پر قابو پانا ہے بلکہ ایک مضبوط ملکی لگژری مارکیٹ سے بھی مقابلہ کرنا ہے۔

گلیریز لافایئت کے ممبئی میں آٹھ ہزار 400 مربع میٹر کے رقبے میں پھیلے 250 لگژری اور ڈیزائنر برانڈز میں سے تقریباً سب غیر ملکی ہیں۔

صنعت کے ماہرین خبردار کیا ہے کہ مقامی ملبوسات کی بھرپور ثقافت کو دیکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑا جوا ہے۔

ممبئی کی رہائشی 39 سالہ سونل اہوجا کہتی ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ لوئی ویتوں، گوچی اور دیئور جیسے بہت سی برانڈز نے اپنی مصنوعات میں کسی حد تک انڈین ڈیزائن کو کافی اچھے طریقے سے سمویا ہے۔ 

’لیکن آخر میں اگر آپ شادی میں پہننے کے لیے کچھ خریدنا چاہتے ہیں تو آپ (انڈین فیشن ڈیزائنرز میں سے) سبیاساچی یا ترن تہیلیانی ہی سے خریدیں گے۔ آپ ایسی غیر ملکی چیز کیوں خریدنا چاہیں گے جو انڈین بننے کی کوشش کر رہی ہو؟‘

’انڈیا تمام تقاضے پورے کرتا ہے‘

انڈیا کی لگژری مارکیٹ ابھی نسبتاً چھوٹی ہے، لیکن تیزی سے پھیل رہی ہے۔

بزنس فرانس میں جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر ایسٹل ڈیوڈ کے مطابق 2024 میں اس کی مالیت 11 ارب ڈالر تھی اور 2030 تک اس کے تین گنا بڑھ کر 35 ارب ڈالر ہونے کا امکان ہے۔

معیشت ہر سال دسیوں ہزار نئے کروڑ پتی گھرانے پیدا کر رہی ہے۔

یہ صارفین لمبورگینی کاروں سے لے کر لوئی ویتوں کے بیگز تک ہر چیز پر بڑھ چڑھ کر خرچ کر رہے ہیں۔

ایپی نے کے بقول: ’جب کوئی لگژری ہاؤس کسی نئے ملک کو دیکھتا ہے تو وہ امیر لوگوں کی تعداد اور ابھرتے ہوئے متوسط طبقے کو مدنظر رکھتا ہے۔ انڈیا ان تمام تقاضوں کو پورا اترتا ہے۔‘

حقیقت زیادہ پیچیدہ ہے

فرانسیسی لگژری دیوہیکل کمپنیوں نے رابطہ کرنے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی یہ خاموشی اس بات کی عکاس ہے کہ اس مارکیٹ کے بارے میں، جسے عام طور پر مشکل سمجھا جاتا ہے، ان کے پاس کہنے کو مثبت باتیں کم ہیں۔

 فرانس کے ایسیک بزنس سکول کے اشوک سوم نے کہا کہ ’ان کے پاس یہ دکھانے کے لیے بہت کم ڈیٹا ہے کہ وہ منافع کما رہی ہیں یا سرمایہ کاری پر کوئی منافع حاصل کر رہی ہیں۔‘

ایپی نے کہتی ہیں کہ کی دہائی کے اوائل میں سب سے بڑے فیشن ہاؤسز نے چین کے بعد اپنی اگلی ترقی کے انجن کے طور پر انڈیا پر نظر جمائی تھی۔ لیکن ایک چوتھائی صدی گزرنے کے بعد بھی مارکیٹ بہت چھوٹی ہی ہے۔

ایپی نے کے مطابق زیادہ تر برانڈز کے انڈیا میں صرف ایک سے تین تک سٹورز ہیں، جب کہ چین میں ان کی تعداد سو سے چار سو تک ہے۔

ایپی نے کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک ان دونوں بہت بڑے ملکوں میں واحد حقیقی مماثلت صرف ’ان کی آبادیوں کا حجم‘ ہے۔ انڈیا میں چین جیسی ’سماجی، لسانی اور علاقائی یکسانیت‘ موجود نہیں۔

 ایسٹل ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ انڈیا میں اب بھی اعلی درجے کے شاپنگ مالز کی تعداد محدود ہے اور ان میں سے زیادہ تر اس معیار پر پورا نہیں اترتے جو گاہکوں کو مشرق وسطی، یورپ، امریکہ یا چین میں ملتا ہے۔
’انڈیا ابھی ترقی کے اسی مرحلے پر نہیں پہنچا، اس لیے اس کا موازنہ کرنا بہت مشکل ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ثقافتی ہم آہنگی

زیادہ کسٹم ڈیوٹی اکثر ان انڈین صارفین کو، جو انتہائی مہنگی اشیا خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں، 350 ڈالر کے دبئی کے دوطرفہ سفر کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، جہاں وہ انڈیا کے مقابلے میں 40 فیصد تک کم قیمت پر فرانسیسی لگژری ہینڈ بیگ خرید سکتے ہیں۔

46 سالہ کاروباری شخصیت وشال متھر جو ممبئی میں اپنے خاندان کے کاروبار میں کام کرتے ہیں، نے بتایا کہ ’آدمی ہنر کے لیے، انداز کے لیے، برانڈ کے لیے پیسے دینے کو تیار ہوتا ہے۔
'لیکن یہ کہنا کہ آپ صرف انڈیا میں خریداری پر اضافی رقم ادا کریں؟ ہرگز نہیں۔‘

ایپی نے کہا کہ انڈیا اور یورپی یونین نے اس سال کے اختتام تک ایک آزاد تجارتی معاہدہ حتمی شکل دینے کا عہد کیا ہے، جو مارکیٹ میں ’نئی ہوا‘ لائے گا اور انڈیا میں منافع کمانے کے لیے تخلیقی سوچ درکار ہوگی۔
اگرچہ بڑے غیر ملکی ریڈی ٹو وئیر برانڈز کے نئی دہلی، ممبئی اور ٹیک دارالحکومت بنگلورو جیسے میگا شہروں میں آؤٹ لیٹس موجود ہیں، لیکن مغربی فیشن اب بھی اقلیت میں ہے۔

خاص مواقع پر بہت سے مرد روایتی گھٹنے تک لمبے کرتے پہنتے ہیں، جب کہ لہراتی ساڑھیاں اب بھی عورتوں کا سب سے مقبول لباس ہیں۔

مارکیٹ کے ماہرین کے مطابق لوبوتاں، دیئور، شانل اور بولگاری جیسے برانڈز مقامی صارفین کو لبھانے کے لیے پہلے ہی ڈیزائنرز، لیبلز، بولی وڈ سٹارز اور مقامی انفلوئنسرز کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
ایسٹل ڈیوڈ نے کہا کہ ’آپ کو ثقافت، ذوق اور خرچ کرنے کی عادات کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سٹائل