’خواتین اول‘ دنیا میں امن لانے کے لیے زیادہ سرگرداں

سیاسی نعرہ بازی کے اس دور میں ’خطوط کی سفارت کاری‘ دوبارہ واپس آ گئی ہے، اس کا سہرا میلانیا ٹرمپ اور اولینا زیلینسکا کے سر ہے جن کے ہاتھ سے لکھے گئے خطوط نہ صرف یوکرین کے امن عمل پر اثر ڈال رہے ہیں بلکہ اپنے اصل مخاطبین سے آگے بھی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

اٹلی کی وزیراعظم جارجیا میلونی 10 جولائی 2025 کو یوکرین کے صدر وولودی میر زیلینسکی اور ان کی اہلیہ اولینا زیلنسکا کا روم میں ’یوکرین ریکوری کانفرنس‘ کے موقع پر استقبال کر رہی ہیں (اے ایف پی)

روسی رہمنا ولادی میر پوتن کے سامنے کھڑے (یا ڈگماتے) ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس بھلے دنیا کی سب سے طاقتور فوج ہو گی لیکن جب ممکنہ امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی بات آتی ہے تو ان کی اہلیہ میلانیا صرف اپنے مونٹ بلانک قلم کے ساتھ نہایت عمدہ سفارت کاری کر رہی ہیں۔

الاسکا سربراہی اجلاس میں جمعے کے روز پوتن نے اپنے سامنے ڈھیر ہونے والے امریکی صدر پر پوری طرح غلبہ پا لیا۔ تاہم انہیں خاتون اول کی جو سلووینیا میں پیدا ہوئی تھیں، طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں روس کی جانب سے یوکرینی بچوں کے ساتھ برے سلوک کا ذکر تھا اور پوتن سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ ان کے تحفظ کے لیے اپنی پوری کوشش کریں۔

میلانیا واحد خاتون اول نہیں ہیں جنہوں نے یوکرین جنگ کے خاتمے کی کوشش میں قلم اٹھایا ہو۔

صدر زیلنسکی نے وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنی تباہ کن ملاقات کا اعادہ کرنے سے گریز کیا اور اپنی پوزیشن کو نرم کرتے ہوئے اپنی اہلیہ اولینا زیلینسکا کا ایک خط ٹرمپ کی اہلیہ کے نام دیا، جس میں یوکرینی بچوں کی زندگیاں بچانے کی کوششوں پر ان کا شکریہ ادا کیا گیا تھا۔

زیلینسکی نے مسکراتے ہوئے ٹرمپ سے کہا: ’یہ آپ کے لیے نہیں، آپ کی اہلیہ کے لیے ہے۔‘

اس موقعے پر فضا فروری کی اس تلخ ملاقات کے برعکس کافی خوشگوار تھی جس میں زیلنسکی کو دنیا بھر کے کیمروں کے سامنے سبکی اٹھانی پڑی تھی۔

گذشتہ صدیوں میں، جب بین الاقوامی تعلقات زیادہ تر ہاتھ سے لکھے خطوط پر منحصر تھے، اسے ’خطوط کی سفارت کاری‘ (letter diplomacy) کہا جاتا تھا۔ آج اسے ’سمتھسن سفارت کاری‘ کہا جا سکتا ہے اور وٹس ایپ کے عجلت میں لکھے گئے پیغامات کے دور میں معیاری سٹیشنری اور بھی زیادہ اثر رکھتی ہے۔ اگر یہ جنگ زدہ علاقوں میں خونریزی روکنے میں مددگار ثابت ہو تو ایسی خواتین اول کی کاوشیں خوش آئند ہیں۔

میلانیا  کے پوتن کو بھیجے گئے خط کا مذاق اڑانا آسان ہے۔ اس کی ساخت نیم خواندہ سی، الفاظ مبہم، اور صاف بات کرنے سے گریز ہے۔ مثال کے طور پر وہ جملہ جو پوتن کی جانب سے 20 ہزار یوکرینی بچوں کے اغوا کی طرف اشارہ کرتا ہے، جس پر انہیں جنگی مجرم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔

جیسا کہ انہوں نے لکھا: ’ایک سادہ مگر گہرا تصور، مسٹر پوتن، جیسا کہ مجھے یقین ہے آپ بھی اتفاق کریں گے، یہ ہے کہ ہر نسل کے بچے اپنی زندگیاں پاکیزگی اور معصومیت کے ساتھ شروع کرتے ہیں، ایک ایسی معصومیت جو جغرافیہ، حکومت اور نظریے سے ماورا ہوتی ہے۔‘

یہ الگ بات ہے کہ پوتن، جو ایک سفید فام قوم پرست، سامراجی ذہنیت رکھنے والے اور خود کو پیٹر اعظم کا وارث سمجھتے ہیں، ان خیالات سے اتفاق نہیں کرتے۔ میلانیا جانتی ہیں کہ روسی رہنما کو مزید مشتعل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور ویسے بھی یہ خط براہ راست ان کے لیے نہیں تھا۔

اصل مخاطب ان کے شوہر اور وہ رپبلکن رہنما تھے جن کے دل میں اب بھی کچھ احساس باقی ہے۔ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ روس اور اس کی یوکرین پر جارحیت کے خلاف رپبلکن پارٹی کے ووٹروں کے رویے مزید سخت ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی اہلیہ یوکرین پر ’انتہائی غیر جانبدار‘ ہیں۔ کوئی اس بات پر یقین نہیں کرتا۔ 55 سالہ میلانیا سلووینیا میں پلی بڑھی ہیں جو کمیونسٹ یوگوسلاویہ کا سب سے مغرب نواز خطہ تھا اور انہوں نے روس کی 2022 میں یوکرین پر مکمل حملے کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر یوکرینی عوام کے لیے دعا اور نیک خواہشات کا پیغام دیا تھا۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے بھی اس بات کا ذکر کیا کہ کس طرح خاتون اول اکثر ٹرمپ کو یاد دلاتی رہی ہیں کہ کریملن کے مقابلے میں وہ کس مشکل میں ہیں۔ روٹے کے بقول ٹرمپ نے کہا: ’میں گھر آتا، کہتا: ’خاتون اول، میری ولادی میر سے نہایت شاندار بات ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے سب ختم ہو گیا۔‘ پھر میں ٹی وی آن کرتا یا وہ مجھے کہتیں: ’کمال ہے، ابھی خبر آئی ہے کہ انہوں نے نرسنگ ہوم پر بمباری کر دی ہے۔‘

یہ بات خوفناک ہے کہ پوتن کس آسانی سے ٹرمپ کو صرف ایک مصافحہ، شرارت بھری مسکراہٹ اور پانچ منٹ کی نجی گفتگو سے ڈھیر کر لیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ یورپی رہنماؤں سے لے کر ان کی اہلیہ تک جتنی زیادہ آوازیں ممکن ہوں، امریکی صدر کو یاد دلاتی رہیں کہ پوتن ظالم، جھوٹے اور اقتدار کے دیوانے آمر ہیں اور ان کی چاپلوسی کرنے سے کوئی نوبیل انعام نہیں ملے گا۔

اولینا زیلنسکا بھی سافٹ سفارت کاری میں سرگرم رہی ہیں۔ اپریل 2022 میں یوکرین کی پہلی خاتون نے ووگ میگزین کے لیے پرسکون انداز میں فوٹو شوٹ دیا۔ سفید ریشمی لباس میں وہ کسی فیشن شو کی ماڈل لگ رہی تھیں لیکن بات انہوں نے روسی حملے کی تباہ کاریوں پر کی جو یوکرینی عورتوں اور بچوں پر ڈھائے جا رہے تھے۔

خواتین اول کی سفارت کاری نئی بات نہیں، جیسا کہ جان ایف کینیڈی نے جیکی کینیڈی کو سافٹ پاور کے ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، نینسی ریگن نے سرد جنگ کے خاتمے کو تیز کرنے کی کوشش کی، ہلیری کلنٹن اور لارا بش نے عورتوں کے حقوق کی وکالت کی۔

لیکن ان میں سے کوئی بھی میلانیا  کی موجودہ پوزیشن میں نہیں رہی۔ وجہ صاف ہے یعنی ان میں سے کوئی بھی ایسے امریکی صدر کی شریک حیات نہیں تھی جو آمر حکمرانوں کے سحر میں اس قدر گرفتار ہو۔

میلانیا ، تمہارے قلم کی سیاہی کبھی ختم نہ ہو۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر