الاسکا میں سربراہی اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی اہلیہ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ کا ایک خط ولادی میر پوتن کو خود دیا۔ اس مکتوب میں روسی صدر سے اپیل کی گئی کہ وہ برسوں سے جاری جنگ میں پھنسے یوکرینی بچوں کی ’مسکراہٹوں‘ کو بحال کر دیں۔
فرسٹ پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق بہت سے لوگوں نے کہا کہ خط ’مبہم‘ ہے اور ’کافی کچھ نہیں کہتا‘، جس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ شاید خاتون اول نے یہ خط کیا مصنوعی ذہانت نے تیار کیا تھا۔
جب ڈونلڈ ٹرمپ الاسکا میں ولادی میر پوتن سے ملے تو یہ ملاقات عالمی خبروں کی زینت بن گئی۔ لیکن بات صرف مذاکرات تک محدود نہیں رہی۔
ملاقات کے دوران ٹرمپ نے خاتون اول میلانیا ٹرمپ کا ایک ’خط‘ خود اپنے ہاتھ سے پوتن کو دیا، جس میں روسی رہنما سے کہا گیا کہ وہ یوکرینی بچوں کی تین سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ کے دوران کھوئی ہوئی ’مسکراہٹ‘ کو واپس لے آئیں۔
یہ خط فوراً توجہ کا مرکز بن گیا۔ یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے میلانیا کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بچوں کی حالتِ زار کو اجاگر کیا۔ مگر جب خط کی کاپی آن لائن گردش کرنے لگی تو بہت سے لوگوں نے اسے ’مبہم‘ قرار دیا اور سوال اٹھایا کہ آیا واقعی خاتون اول نے خود لکھا یا پھر یہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کیا گیا تھا؟
خط میں کیا تھا؟
فاکس نیوز کے مطابق جب ڈونلڈ ٹرمپ نے الاسکا سمٹ میں یہ خط پیش کیا تو ولادی میر پوتن نے اسے امریکی اور روسی وفود کے سامنے بلند آواز سے پڑھنے کا فیصلہ کیا۔
یہ خط اس طرح شروع ہوتا ہے: ’محترم صدر پوتن۔ ہر بچہ دل میں ایک ہی خاموش خواب رکھتا ہے، چاہے وہ کسی ملک کے پسماندہ دیہی علاقے میں پیدا ہوا ہو یا کسی شاندار شہر کے مرکز میں۔ وہ محبت، امکانات اور خطرات سے تحفظ کے خواب دیکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’مسٹر پوٹن، آپ اکیلے ہی ان کی ہنسی واپس لا سکتے ہیں۔ ان بچوں کی معصومیت کے تحفظ میں آپ نہ صرف روس کی خدمت کریں گے — بلکہ آپ خود انسانیت کی خدمت کریں گے۔‘
خط کا اختتام اس انداز میں ہوا: ’ایسا ایک دلیرانہ خیال تمام انسانی تقسیم سے مبرا ہے، اور آپ، مسٹر پوتن، اس وژن کو آج ایک قلم کی حرکت سے نافذ کرنے کے اہل ہیں۔ اس کا وقت آ گیا ہے۔‘
کیا یہ خط اے آئی سے لکھوایا گیا؟
جیسے ہی میلانیا ٹرمپ نے اپنے سرکاری انسٹاگرام پر یہ خط شیئر کیا، آن لائن صارفین نے قیاس آرائی شروع کر دی کہ کیا یہ واقعی مصنوعی ذہانت نے لکھا تھا۔
اگرچہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے اب تک کوئی سرکاری ردِ عمل سامنے نہیں آیا، ناقدین نے نشاندہی کی کہ خط میں واضح نہیں تھا کہ وہ کن ’بچوں‘ کا ذکر کر رہی ہیں، یا وہ پوتن سے کیا چاہتی ہیں کہ وہ کرے۔
اگرچہ پیغام سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ ان کی مراد یوکرینی بچوں سے ہے لیکن اس میں امریکی میگزین مدر جونز نے کہا کہ واضح طور پر ان تکلیفوں کا ذکر نہیں تھا جو انہوں نے فروری 2022 میں روس کے حملے کے بعد سہیں۔
ڈیموکریٹک سٹریٹیجسٹ کیتھ ایڈورڈز نے بھی ایک پوسٹ میں اپنی ردِ عمل میں براہِ راست کہا کہ یہ خط ’بہت کچھ نہیں کہتا‘ اور شک کا اظہار کیا کہ ’شاید اسے AI نے لکھا ہو۔‘
زیلنسکی کا شکریہ
یوکرین کے وزیرِ خارجہ اندری سیبِہا نے سوشل میڈیا پر پوسٹ میں کہا کہ زیلنسکی نے سمٹ کے بعد ہفتے کو ایک گفتگو کے دوران ٹرمپ سے خاتون اول کا شکریہ ادا کرنے کا کہنا۔
کیئف طویل عرصے سے ماسکو پر الزام لگا رہا ہے کہ جنگ کے دوران ہزاروں بچوں کو اغوا کر کے روس یا زیرِ قبضہ علاقوں میں منتقل کیا گیا — اور اسے جنگی جرم قرار دیا۔
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم از کم 200 بچوں کو پہلے سال میں منتقل کیا گیا تھا، جبکہ آزاد اندازے اس تعداد کو کہیں زیادہ بتاتے ہیں: ییل یونیورسٹی کے محققین نے 35,000 سے زیادہ بتایا، اور یوکرین کے حقوق کے کمیشنر نے 19,500 سے زائد کا دعویٰ کیا — جن میں سے تقریباً 1,000 ہی واپس لوٹے ہیں۔
2023 میں بین الاقوامی فوجداری عدالت نے ولادی میر پوتن اور روس کی بچوں کی کمشنر ماریا لوووا-بیلووا کے خلاف اغوا کے سلسلے میں گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے تھے۔
تاہم، میلانیا کے اس نام نہاد خط میں ان تمام باتوں کا ذکر کہیں نہیں تھا۔ اس کے بجائے، اس میں بہت سے لوگوں کے لیے ایک مبہم لہجہ تھا، حالاں کہ خود ٹرمپ نے گ؛شتہ ماہ صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان کی اہلیہ اس جنگ سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔
’میں گھر جا کر خاتون اول کو بتاتا ہوں کہ آج میں نے ولادی میر سے بات کی، ہماری بہت اچھی گفتگو ہوئی۔‘ وہ کہتی ہیں، ’واقعی؟ ایک اور شہر پر حملہ ہوا ہے،‘ صدر نے اوول آفس میں صحافیوں کو بتایا۔