ٹرمپ، پوتن ملاقات الاسکا میں: جسے روس نے چار ڈالر فی مربع کلومیٹر میں بیچا

15 اگست کو الاسکا میں ٹرمپ - پوتن ملاقات ہونے جا رہی ہے، جس سے سوال اٹھ رہا ہے کہ الاسکا ہی کیوں؟ دبئی، استنبول یا کوئی اور غیر جانب دار مقام کیوں نہیں؟

15 اگست، 2025 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پوتن کی الاسکا میں ایک غیر معمولی ملاقات ہونے جا رہی ہے۔ جس سے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ الاسکا ہی کیوں؟ دبئی، استنبول یا اس جیسا کوئی اور غیر جانب دار مقام کیوں نہیں؟

الاسکا کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ 1867 تک الاسکا روس کا حصہ تھا۔ پھر روسی زار الیگزینڈر دوم نے یہ وسیع و عرض برفانی خطہ 72 لاکھ ڈالر یعنی تقریباً چار ڈالر فی مربع کلومیٹر لے کر امریکہ کو بیچ دیا۔ اس سودے میں امریکی وزیرِ خارجہ ولیم سیورڈ نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

روس اس علاقے کو بیچنا چاہتا تھا کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ اس وقت کی سپر پاور برطانیہ کے ساتھ کوئی جنگ ہوئی تو وہ اس علاقے پر کنٹرول برقرار نہیں رکھ سکے گا کیوں کہ یہ کینیڈا سے ملحق تھا۔ دوسرے یہ اس برف سے ڈھکے دور افتادہ خطے کی دیکھ بھال روس کو بہت مہنگی بھی پڑ رہی تھی۔

امریکہ نے الاسکا کیوں خریدا؟ اس لیے کہ ابھی صرف تین سال پہلے وہاں خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد امریکہ تیزی سے صنعتی طاقت بنتا جا رہا ہے اور اس کی معیشت پھول پھول رہی تھی، اس لیے وہ بھی اپنی سرحدیں اور وسائل بڑھانے کا خواہاں تھا۔

اس وقت 72 لاکھ ڈالر بڑی رقم تھی، اس لیے امریکہ کے اندر اس خریداری کے خلاف آوازیں اٹھیں اور بہت سے امریکیوں نے اسے فضول خرچی قرار دیا اور طنزیہ طور پر اسے ’سیورڈ کی حماقت‘ (Seward’s Folly) کہا جاتا رہا۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ یہ سودا امریکہ کے لیے نہایت فائدہ مند تھا کیونکہ بعد میں الاسکا میں تیل، سونا اور دیگر قیمتی وسائل دریافت ہوئے اور یہ ریاست سٹریٹجک طور پر بھی بے حد اہم ثابت ہوئی۔

الاسکا اور روس کا فاصلہ صرف 88 کلومیٹر ہے جبکہ مین لینڈ امریکہ اس سے 800 کلومیٹر دور ہے۔

الاسکا بڑی ریاست ہے، اس کا رقبہ 17 لاکھ مربع کلومیٹر ہے، یعنی پاکستان سے دوگنا سے بھی زیادہ۔ البتہ زیادہ علاقہ سخت برفانی ہے جس کی وجہ سے آبادی صرف سات لاکھ 40 ہزار ہے۔

الاسکا کے سودے کے 158 سال بعد ایک اور روسی سربراہ یعنی ولادی میر پوتن امریکہ کے ساتھ لین دین کا ایک اور سودا کرنے جا رہے ہیں۔ 

اس بار یہ سودا یوکرین پر ہو گا اور اس کے لیے قیمت ڈالروں میں نہیں بلکہ جنگ بندی کی صورت میں چکائی جائے گی۔

روس کے ساتھ تاریخی تعلق کے علاوہ الاسکا کے انتخاب کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ 

عالمی عدالت انصاف نے جنگی جرائم کے تحت صدر پوتن کے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔ امریکہ عالمی عدالت کو تسلیم نہیں کرتا اس لیے پوتن کو وہاں گرفتاری کا خطرہ نہیں۔ 

مزید یہ کہ الاسکا کی جانب پرواز کرتے ہوئے صدر پوتن کے جہاز کو کسی مخالف ملک کی فضا سے بھی نہیں گزرنا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ اقتدار میں آنے سے پہلے ہی یوکرین جنگ بند کروانے کے سلسلے میں بیانات دیتے رہے ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا تھا کہ وہ صدر بننے کے 24 گھنٹے کے اندر جنگ بند کروا دیں گے۔ اس کے بعد وہ پوتن کو آٹھ اگست تک جنگ بند کرنے کی ڈیڈ لائن بھی دے چکے ہیں، مگر جنگ ہے کہ دہکے جا رہی ہے۔

دونوں رہنما اس سے قبل 2018 میں بھی مل چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کو ویسے بھی جنگیں بند کروانے کا بڑا شوق ہے۔ 

وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ انڈیا پاکستان جنگ انہوں نے بند کروائی تھی۔ حالانکہ انڈیا اس کی تصدیق کرنے سے انکار کرتا ہے۔ 

اس کے علاوہ گذشتہ ہفتے انہوں نے آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان وائٹ ہاؤس میں جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کروائے۔

لیکن یوکرین - روس جنگ کا خاتمہ اتنا آسان نہیں۔ پوتن بہت بےلچک مذاکرات کار ہیں اور ان کا کوئی بڑی رعایت لیے بغیر جنگ سے ہاتھ کھینچنا بہت مشکل ہے۔ 

ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ روس سے یوکرین کا کچھ علاقہ بازیاب کروانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے جمعے کو کہا تھا کہ ’روس نے یوکرین کے بہت سے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہم اس میں سے کچھ علاقہ یوکرین کو واپس کروانے کی کوشش کریں گے۔‘

’کچھ علاقہ‘ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت روس نے یوکرین کے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے، ٹرمپ اس کا ایک بڑا حصہ روس کو دینے کے حامی ہیں۔

وہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں ’کچھ علاقوں کا لین دین ہو گا۔‘

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یوکرینی صدر ولودی میر زیلنسکی نے یوکرین کی سرزمین کے حصے بخرے کے کسی بھی منصوبے کو مسترد کر دیا ہے۔ یورپی یونین بھی علاقوں کے ’تبادلے‘ کے خلاف ہے۔ اور اس کا کہنا ہے کہ اگر یوکرین کسی ڈیل کا حصہ نہیں ہے تو وہ ڈیل قابلِ عمل نہیں ہو گی۔ 

اس صورتِ حال میں کوئی بڑی پیش رفت ہونے کا امکان کم ہے۔ لیکن اگر کوئی الاسکا کے برف زار میں اگر کوئی گرما گرم بریک تھرو ہو جاتا ہے تو یہ ٹرمپ کی اب تک کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی ہو گی اور امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے کے ان کے نمبروں میں ایک اور کا اضافہ ہو جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا