ٹرمپ نے دھونس کو خارجہ پالیسی کا آلۂ کار بنا لیا

بلیک میلنگ ایک بدنما لفظ ہے، لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں کہ چاہے آپ خودمختار ملک ہوں، میڈیا ادارہ، تعلیمی ادارہ یا قانونی فرم، اگر آپ نے ٹرمپ کی مرضی کے مطابق کام نہ کیا، تو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 5 اگست 2025 کو آرکیٹیکٹ جیمز سی میک کری کے ساتھ واشنگٹن ڈی سی میں چھت سے وائٹ ہاؤس کے میدان کا سروے کر رہے ہیں (اے ایف پی)

آپ کو یقیناً وہ مشہور نظریہ یاد ہو گا جسے ’نظریۂ انتشار‘(chaos theory)  کہا جاتا ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ اگر ایمازون کے جنگل میں ایک تتلی اپنے پر ہلائے، تو دنیا کے کسی اور حصے میں طوفان آ سکتا ہے۔ اس نظریے کا مطلب یہ ہے کہ کسی پیچیدہ اور جڑے ہوئے نظام میں کوئی معمولی سی تبدیلی کہیں اور بڑے نتائج پیدا کر سکتی ہے۔

تو اب تتلی کو بھول جائیں اور اس کی جگہ ایک 70 سالہ برازیلی شخص کا تصور کریں، جس کے پاؤں میں ایک الیکٹرانک ٹریکر باندھ دیا گیا ہے کیونکہ خطرہ تھا کہ وہ فرار ہو جائے گا اور اب اس معمولی واقعے کا اثر ہزاروں میل دور واشنگٹن ڈی سی میں ایک طوفان کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

یہ 70 سالہ شخص برازیل کے سابق صدر ہائر بولسونارو ہیں، جن پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے 2023 کے برازیلی عام انتخابات کے بعد لولا ڈی سلوا کو اقتدار سنبھالنے سے روکنے کے لیے بغاوت کی کوشش کی اور اب وہ جیل کی سزا کا سامنا کر رہے ہیں۔

ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ اور بولسونارو کو ہم خیال روحیں سمجھا جاتا تھا۔ دونوں ضدی، نظام شکن اور ’اپنے ملک کو دوبارہ عظیم بنانے‘ کے نعرے پر یقین رکھنے والے لیڈر تھے، چاہے اس کے لیے انہیں جمہوری انتخابات کے نتائج کا انکار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

یقیناً یہ پہلی بار نہیں کہ ’ٹرمپ‘ اور ’انتشار‘ جیسے الفاظ ایک ہی جملے میں استعمال ہوئے ہوں۔ ان کی صدارت کے ابتدائی چھ ماہ نے ایسے لاتعداد حیران کن اور غیر متوقع لمحات پیدا کیے ہیں۔

کچھ لوگ تو یہ بھی کہیں گے کہ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی بذاتِ خود نظریۂ انتشار کی عملی مثال ہے، جس کے تحت درآمدی محصولات اتنی تیزی سے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں کہ سر چکرا جائے۔

بس اسی ہفتے دیکھ لیجیے، درجنوں ممالک کو اس بنیاد پر سزائیں دی گئی ہیں کہ وہ امریکہ سے تجارتی معاہدے پر متفق نہ ہو سکے۔

اب بولسونارو کا اس سب سے کیا تعلق ہے؟

صدر ٹرمپ نے اب برازیل پر امریکہ کو برآمد کی جانے والی تمام اشیا پر50 فیصد ٹیرف لگا دیا ہے، جو اُس وقت تک برقرار رہے گا، جب تک کہ بولسونارو پر عائد الزامات واپس نہ لیے جائیں۔

آپ کہیں گے کہ کیا ٹیرف تجارتی خسارے کی بنیاد پر نہیں لگائے جاتے؟ اور برازیل اور امریکہ کے درمیان تو ایسا کوئی خاص خسارہ یا فائدہ ہے بھی نہیں۔ پھر ٹرمپ کو برازیل کی عدلیہ کے معاملات میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ کیا یہ برازیل کی آزاد سپریم کورٹ نہیں جو قانون کے مطابق کام کر رہی ہے؟

جی ہاں، یہ سب سوالات بالکل جائز ہیں، لیکن یہ اس نئی طرزِ حکمرانی کی مثال ہے جہاں ایک آمرانہ رجحان رکھنے والا صدر دھونس، دھمکی اور مالیاتی سزاؤں کے ذریعے اپنا ایجنڈا مسلط کرتا ہے۔

کینیڈا اور فلسطین پر بھی دباؤ

برازیل ہی نہیں، کینیڈا پر بھی مخصوص اشیا پر 25 فیصد سے بڑھا کر 35 فیصد ٹیرف لگا دیا گیا ہے۔ وجہ؟

کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیلی حکومت مخصوص شرائط پوری نہیں کرتی، تو وہ برطانیہ کی طرح فلسطین کو تسلیم کرے گا۔

اگر آپ کا اگلا سوال یہ ہے کہ ’تو برطانیہ کو ایسی دھمکیاں کیوں نہیں دی جا رہیں جبکہ ہماری حکومت (مارک کارنی کی طرح) کینیڈا جیسی ہی پوزیشن پر ہے؟‘ تو میں صرف ایک کندھے اچکانے والی ایموجی دے سکتا ہوں۔

ٹرمپ کا نیا ہتھیار

امریکہ کے سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ کہا کرتے تھے کہ امریکی صدر کو ایک bully pulpit حاصل ہے، یعنی قومی بیانیہ تشکیل دینے کی غیر معمولی طاقت۔ لیکن ٹرمپ نے اس تصور کو ایک نیا اور خطرناک رُخ دے دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے پہلے چھ ماہ کے دوران امریکہ کی بڑی قانونی فرموں کو بلیک میل کیا گیا ہے۔ بے بنیاد وجوہات پر انہیں خبردار کیا گیا کہ اگر وہ صدر کی پسندیدہ وجوہات کے لیے مفت خدمات فراہم نہیں کریں گے، تو انہیں اربوں ڈالر کے سرکاری معاہدوں سے محروم کر دیا جائے گا۔ کچھ فرموں نے ساڑھے 12 کروڑ ڈالر تک کا مفت کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ایک وکیل نے اسے ’خالص بلیک میلنگ‘ قرار دیا۔

ہارورڈ یونیورسٹی ٹرمپ کے ساتھ 50 کروڑ ڈالر کے عوض تصفیے کی کوشش کر رہی ہے۔ کئی میڈیا کمپنیوں نے، جن کے انضمام عدالت میں زیرِ غور تھے، ٹرمپ کے بےبنیاد مقدمات کے بعد لاکھوں ڈالر ادا کیے ہیں۔

سی بی ایس نے اپنے مشہور شو ’دا لیٹ شو ود سٹیون کولبیئر‘ کو بند کر دیا، کیونکہ کولبیئر طویل عرصے سے ٹرمپ پر تنقید کرتے آ رہے تھے اور غالباً ان کے ادارے پیراماؤنٹ نے سوچا کہ اس قربانی کے ذریعے ان کا اربوں ڈالر کا انضمامی معاہدہ سکائی ڈانس میڈیا کے ساتھ آگے بڑھ سکے گا اور ایسا ہی ہوا۔ معاہدے کو پچھلے ہفتے منظوری مل گئی۔

ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر کولبیئر کی برطرفی پر خوشی کا اظہار کیا، جس پر کولبیئر نے طنزاً گالی کی صورت میں جواب دیا۔

ایک سوال: یہ سب کچھ بلیک میلنگ نہیں تو کیا ہے؟

فی الحال برازیل سفارتی زبان استعمال کر رہا ہے، لیکن جھک نہیں رہا، یہ شاذ و نادر مثال ہے کہ کوئی ملک ٹرمپ کے سامنے کھڑا ہو رہا ہے۔ کینیڈا کو بھی اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کیا کرے گا۔

بلیک میلنگ ایک بدنما لفظ ہے، لیکن موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں کہ چاہے آپ خودمختار ملک ہوں، میڈیا ادارہ، تعلیمی ادارہ یا قانونی فرم، اگر آپ نے ٹرمپ کی مرضی کے مطابق کام نہ کیا، تو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر