صدر ٹرمپ کا امریکی سفارت کار کو آئندہ ہفتے روس بھیجنے کا اعلان

امریکی ایلچی کا یہ دورہ صدر ٹرمپ کی پابندیوں کی ڈیڈلائن اور ماسکو کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ہو رہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تین اگست 2025 کو ایئرپورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے (اے ایف پی)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو تصدیق کی کہ ان کے خصوصی ایلچی سٹیو وِٹکوف آئندہ ہفتے روس کا دورہ کریں گے۔ یہ دورہ امریکی پابندیوں کی ڈیڈلائن اور ماسکو کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں ہو رہا ہے۔

واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ (روس کے خلاف) دو جوہری آبدوزیں بھی تعینات کر چکے ہیں۔

آبدوزوں کی یہ تعیناتی روس کے سابق صدر دمتری میدویدف کے ساتھ ایک آن لائن تنازع کے بعد سامنے آئی تھی جو (ممکنہ طور پر روس کے قریبی) خطے میں موجود ہیں۔

اتوار کے بیان میں بھی صدر ٹرمپ نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ آبدوزیں صرف جوہری توانائی سے چلنے والی ہیں یا جوہری ہتھیاروں سے لیس بھی ہیں۔ انہوں نے آبدوزوں کے مقام کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا، جو عموماً امریکی فوج کی طرف سے خفیہ رکھا جاتا ہے۔

امریکہ کی جانب سے یہ جوہری طاقت کی نمائش ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ٹرمپ نے روس کو آئندہ ہفتے کے آخر تک مہلت دی ہے کہ وہ یوکرین جنگ کے خاتمے کی طرف قدم اٹھائے ورنہ ماسکو نئی (اور غیر واضح) پابندیوں کا سامنا کرے گا۔

ٹرمپ نے امریکی ایلچی کے مجوزہ دورے کے بارے میں کہا: ’میرے خیال میں سٹیو وِٹکوف آئندہ بدھ یا جمعرات کو روس جائیں گے۔‘

روسی صدر ولادی میر پوتن پہلے بھی ماسکو میں وِٹکوف سے متعدد بار ملاقاتیں کر چکے ہیں مگر ٹرمپ انتظامیہ کی کریملن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں اب رک چکی ہیں۔

جب رپورٹرز نے صدر ٹرمپ سے پوچھا کہ سٹیو وِٹکوف ماسکو جا کر کیا پیغام دیں گے اور کیا روس پابندیوں سے بچنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے؟ تو ٹرمپ نے جواب دیا: ’ہاں، کوئی ایسا معاہدہ کروائیں جس سے لوگوں کی اموات بند ہو جائیں۔‘

صدر ٹرمپ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ روس کے خلاف نئی پابندیاں ممکنہ طور پر ’ثانوی محصولات‘ پر مشتمل ہوں گی، جن کا ہدف چین اور انڈیا جیسے روس کے دیگر تجارتی شراکت دار ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے اس اقدام سے روس پر مزید دباؤ تو بڑھے گا مگر بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر خلل بھی پیدا ہو سکتا ہے۔

واشنگٹن کے دباؤ کے باوجود روس کی یوکرین پر جارحیت جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر پوتن، جو فائر بندی کی اپیلوں کو مسلسل مسترد کرتے آ رہے ہیں، نے جمعے کو کہا تھا کہ وہ امن چاہتے ہیں لیکن ان کے مطالبات ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔

انہوں نے کہا: ’ہمیں ایک پائیدار اور مستحکم امن درکار ہے جو روس اور یوکرین، دونوں کی سکیورٹی کو یقینی بنائے۔ تاہم روس کی شرائط وہی کی وہی ہیں۔‘

روس بار بار یوکرین سے مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ ان چار علاقوں پر کنٹرول چھوڑ دے جنہیں ماسکو نے غیرقانونی طور پر ضم کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ مطالبہ کیئف نے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ پوتن یہ بھی چاہتے ہیں کہ یوکرین نیٹو میں شامل ہونے کا ارادہ ترک کر دے۔

اتوار کے روز یوکرین نے سوچی (جہاں 2014 کے سرمائی اولمپکس ہوئے تھے) میں ایک تیل کے ذخیرے پر ڈرون حملہ کیا۔

ٹرمپ نے اپنے دوسرے صدارتی دور کا آغاز اس امید کے ساتھ کیا تھا کہ یوکرین کی جنگ، جو فروری 2022 میں روس کے حملے سے شروع ہوئی، جلد ختم ہو جائے گی۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں انہوں نے پوتن پر مسلسل تنقید کی ہے اور ماسکو کی جارحیت پر اپنی مایوسی ظاہر کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ