پاکستان کے پہاڑی اضلاع بشمول بونیر، سوات، شانگلہ اور گلگت بلتستان میں حالیہ سیلاب اور بارشوں کے بعد ہونے والی تباہی سے نمٹنے کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
اس مرتبہ سیلاب سے زیادہ تباہی دریاؤں کے کنارے میدانی علاقوں میں نہیں بلکہ پہاڑی اضلاع میں آئی جس کی وجہ سے وہاں امدادی سرگرمیاں خاص طور پر بحالی کے کام ایک بڑا چیلنج ہیں۔
ایئر مارشل ریٹائرڈ ارشد ملک، فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن کے نائب صدر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’اس وقت تو تمام تنظیموں کا ردِعمل جذباتی ہے لیکن اصل کام دو سے تین ہفتے بعد شروع ہوگا، جب ان غریب لوگوں کی بحالی کا عمل شروع کرنا ہوگا جن کے گھر تباہ ہو گئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ بحالی کا کام تب ہی ممکن ہو گا ’جب ہم سب مل کر مربوط کوشش کریں، اپنے وسائل اکٹھے کریں اور پھر مل جل کر پہاڑی علاقوں میں یہ کام آگے بڑھائیں۔‘
ایئر مارشل ریٹائرڈ ارشد ملک نے کہا کہ عموماً سیلاب میدانی علاقوں میں آتے ہیں لیکن اس بار پہاڑی علاقے متاثر ہوئے۔
’ پانی کے بہاؤ کے ساتھ سب سے بڑا طوفان پہاڑوں سے آیا — بڑے بڑے پتھر اور چٹانیں پانی کے ساتھ بہہ رہے تھے۔‘
پاکستان میں حالیہ مون سون بارشوں سے سب سے زیادہ متاثر علاقے میں مالاکنڈ ڈویژن شامل ہے جہاں بونیر، سوات اور شانگلہ کے اضلاع میں بڑی تباہی ہوئی۔
ان علاقوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’این ڈی ایم اے‘، پاکستانی حکومت کے سویلین اداروں کے علاوہ مسلح افواج بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جبکہ الخدمت فاؤنڈیشن سمیت دیگر کئی غیر سرکاری فلاحی تنظمیں بھی اس کام میں شامل ہیں۔