خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اتوار کو کہا ہے کہ ان کی حکومت حالیہ سیلاب کے متاثرین کو نئی بستیاں بسا کر اور گھر بنا کر دے گی۔
سوات کے مرکزی شہر سیدو شریف میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’سیلاب سے نقصان اٹھانے والوں کا مالی ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے، متاثرہ افراد کو نئے گھر اور بستیاں بنا کر دیں گے۔ سرکاری املاک کو پہنچنے والے نقصان کا بھی ازالہ کریں گے۔‘
قدرتی آفات سقے نمٹنے کے قومی ادارے (این ڈی ایم اے) کی ویب سائٹ پر جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 15 اگست سے 16 اگست (دن ایک بجے) تک ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب سے مجموعی طور پر 151 افراد جان سے گئے جبکہ 137 افراد زخمی ہوئے۔
اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ 144 اموات خیبر پختونخوا میں ہوئیں، جہاں ضلع بونیر سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوا، وہاں 126 افراد جان سے گئے۔
گلگت بلتستان میں پانچ اموات ہوئیں جبکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں دو افراد سیلاب کی وجہ سے جان سے گئے۔
گذشتہ روز خیبر پختونخوا کی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے کہا تھا کہ ’اکثر افراد اچانک سیلاب اور گھروں کے گرنے سے مارے گئے۔‘
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’بونیر میں نالے کے قریب غیر قانونی مارکیٹ کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تو وہ عدالت سے حکم امتناعی لے آئے، اگر بونیر کی یہ مارکیٹ ہٹا دی جاتی تو اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔‘
وزیر اعلیٰ کے بقول: ’صوبے بھر میں آبی گزرگاہوں کے قریب تجاوزات کے خلاف سخت ترین کارروائی کریں گے کیوں کہ لوگ سالوں سے ندی نالوں کے راستوں میں گھر اور دکانیں تعمیر کر رہے تھے۔ آبادیوں کو آبی گزرگاہوں سے ہٹا کر نئی بستیاں بسائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں تجاوزات کے خلاف مثالی آپریشن کیا گیا ہے اور صوبائی حکومت دیگر شہروں میں بھی ایسی کارروائیاں کرے گی۔
صوبائی ریسکیو ایجنسی نے بتایا تھا کہ تقریباً دو ہزار اہلکار لاشوں کو ملبے سے نکالنے اور امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں، تاہم بارش ان نو متاثرہ اضلاع میں امدادی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
صوبائی حکومت نے بونیر، باجوڑ، سوات، شانگلہ، مانسہرہ اور بٹگرام کے پہاڑی اضلاع کو آفت زدہ قرار دے رکھا ہے۔
خیبر پختونخوا ریسکیو ایجنسی کے ترجمان بلال احمد فیضی نے کہا تھا کہ ’شدید بارش، مختلف علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور سڑکوں کے بہہ جانے کی وجہ سے امداد پہنچانے میں بڑی مشکلات پیش آ رہی ہیں، خاص طور پر بھاری مشینری اور ایمبولینسیں منتقل کرنے میں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’زیادہ تر علاقوں میں سڑکیں بند ہونے کے باعث ریسکیو اہلکار پیدل دور دراز علاقوں میں آپریشن کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے حکام نے اتوار کو بتایا ہے کہ مون سون کے تین مزید سپیل ستمبر کے پہلے دس دنوں تک باقی رہیں گے اور شمالی پنجاب اور شمالی خیبر پختونخوا میں آئندہ دنوں میں مزید کلاؤڈ برسٹ کا بھی خدشہ ہے۔
اسلام آباد میں این ڈی ایم اے ہیڈ کوارٹر میں چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انعام حیدر ملک نے مون سون بارشوں اور سیلابی صورت حال سے متعلق میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ حالیہ بارشوں کی شدت معمول سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ ’گلگت بلتستان کے بابوسر سمیت شمالی پنجاب اور شمالی خیبر پختونخوا میں مزید بارشوں کا امکان ہے جبکہ دیگر علاقوں میں بھی کلاؤڈ برسٹ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔‘
این ڈی ایم اے کے ایکسپرٹ ڈاکٹر طیب نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ اگست میں مون سون کی مزید بارشوں کے تین سلسلے پاکستان میں داخل ہوں گے، جن سے آئندہ 15 دنوں میں ملک گیر بارشوں کا امکان ہے۔
اس سے قبل محکمہ موسمیات نے بھی کہا تھا کہ آج (17 اگست) سے ملک بھر میں مون سون میں شدت متوقع ہے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ’فوج ریسکیو کاموں میں بھرپور تعاون کر رہی ہے، فوج نے ہمارے ہیلی کاپٹر گرنے کے بعد دو ہیلی کاپٹرز فراہم کیے، ہمیں اداروں پر تنقید کی بجائے ان کے اچھے کاموں پر خراج تحسین بھی پیش کرنا چاہیے۔ فوج اور مقامی انتظامیہ مل کر بہت بڑا ریسکیو آپریشن کر رہی ہے۔‘
ان کے بقول: ’مجھ سے وزیر اعظم اور تمام وزرا اعلیٰ نے فون کر کے تعاون کی پیش کش کی جس پر ان کے مشکور ہیں۔ وفاق کی جانب سے امداد اور تعاون کی پیشکش پر شکریہ ادا کرتے ہیں لیکن کے پی امداد لینے والا نہیں دینے والا صوبہ ہے۔‘