خیبر پختونخوا کا ضلع بونیر حالیہ تباہ کن بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے، جہاں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک 325 افراد جان سے گئے ہیں۔
جانی نقصان کے علاوہ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق بونیر کے علاوہ صوبے میں 339 گھروں کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا ہے۔ بونیر میں مکانات کے منہدم ہونے کا ڈیٹا ابھی تک مرتب نہیں ہوا۔
شدید بارشوں، سیلاب یا کسی بھی دوسری قدرتی آفت کا شکار ہونے والے علاقوں کے رہائشی اور متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور ایسا ہی ضلع بونیر میں دیکھنے میں آ رہا ہے۔
بونیر کے پیشونئی اور بٹئی کے علاقوں میں جاتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ کھانے کے لیے دیگیں تواتر سے آ رہی تھیں اور وہاں موجود متاثرین سیلاب میں بانٹی جا رہی تھی۔
کھانا بانٹنے کے دوران یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ مقامی سیلاب زدگان ہیں یا صرف تباہی دیکھنے کے لیے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگ ہیں، جو وہاں موجود رضاکاروں کے لیے بھی امدادی سرگرمیوں میں خلل کا باعث ب رہے تھے۔
سیلاب زدگان کو کن چیزوں کی ضرورت ہے؟
خالد وقاص الخدمت فاؤنڈیشن خیبر پختونخوا کے صدر ہیں اور اتوار کو بونیر میں الخدمت ٹیم کے ساتھ امدادی کاموں کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بونیر میں تباہی ہی تباہی ہے اور متاثرین کو سب سے زیادہ ضرورت کونسلگ کی ہے۔
خالد وقاص نے بتایا کہ پورے پورے گھرانے سیلاب کی نذر ہو گئے ہیں اور بچ جانے والے شدید صدمے کا شکار ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’خوراک اور دیگر چیزوں کے علاوہ سب سے زیادہ کونسلنگ اور حوصلے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’متاثرین شدید صدمے سے دوچار ہیں کیونکہ ان کے گھر میں نہ انسان بچا ہے اور نہ سامان، سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔
’اس کے بعد ظاہری بات ہے کہ بنیادی ضروریات میں خوراک اور پینے کے صاف پانی کی بھی ضرورت ہے اور مختلف فلاحی اداروں کی جانب سے اس کا انتظام کیا جا رہا ہے۔‘
خالد وقاص کے مطابق سیلاب زدگان کی لیے تیسری ضرورت جس پر ابھی ہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے، وہ ان کے گھروں کی دوبارہ تعمیر کا ہے اور یہ بھی ان کو صدمے سے نکالنے کے لیے پہلا قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
ملبہ ہٹانا اور لاشوں کو نکالنے کے لیے مشینری
بونیر کے مختلف دیہاتوں میں جہاں سیلابی ریلا آیا تھا، وہاں اب بھی کئی فٹ تک مٹی پڑی ہے اور مقامی افراد بیلچوں، کدالوں اور دوسرے اوزاروں کی مدد سے ملبہ ہٹا رہے ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ گاؤں قادر نگر کے متاثرہ رہائشی نوید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پورے علاقے میں دو ہیوی مشینریاں کام کر رہی ہیں، جبکہ یہاں ملبہ اور مٹی اتنی زیادہ ہے کہ اس سے کام نہیں چلایا جا سکتا۔
انہوں نے بتایا کہ مختلف گھروں کے افراد لاپتہ ہیں اور ملبے کو ہٹانے اور لاشوں کو ڈھونڈنے کے لیے حکومت کی طرف سے مزید مشینری علاقے میں بھیجنے کی ضرورت ہے۔
’خوراک کی ضرورت لیکن پکا ہوا کھانا نہیں‘
بونیر کے مختلف علاقوں میں امدادی کارروائیوں میں مصروف مقامی رضاکار ریاض خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے مختلف علاقوں میں یہ مشاہدہ کیا کہ ایک ہی گھرانے کو دن میں کئی بار پکا ہوا کھانا ملتا ہے۔‘
انہوں نے تبایا کہ کھانا جب پک جائے تو وہ اسی وقت کھایا جا سکتا ہے اور کوئی بھی ایک دن میں کتنی بار کھانا کھا سکتا ہے؟
’وقت گزرنے کے ساتھ پکا ہوا کھانا خراب ہو جاتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ کھانا پکا ہوا نہ ہو۔‘
ریاض خان نے بتایا، ’فوڈ پیکج کی صورت میں چاول، دالیں، چینی اور دیگر اشیا خوردونوش دینے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ خوراک کے علاوہ متاثرین کو رضائیوں اور کمبلوں کی بھی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر متاثرین سیلاب سے بچ جانے والے گھروں میں آباد ہیں اور وہاں ایسی اشیا کی زیادہ ضرورت ہے۔
مواصلاتی نظام کی بحالی کی ضرورت
بونیر کے متاثرہ دیہاتوں میں موبائل سگنلز، انٹرنیٹ اور پی ٹی سی ایل لینڈ لائن مکمل طور پر منقطع ہیں جو امدادی سرگرمیوں میں خلل ڈال رہا ہے۔
ریسکیو حکام کے مطابق ان سروسز کی بحالی اشد ضروری ہے۔
پیر بابا سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن محمد رفیق کے نے بتایا کہ موبائل سگنلز کی بندش امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے کیونکہ ایسے ایمرجنسی حالات میں تمام متعلقہ ادارے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں لیکن ابھی رابطہ نہیں ہو سکتا۔
رفیق نے بتایا: ’متاثرین کے لیے بھی یہ بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ایک تو وہ اپنے رشتہ داروں سے رابطہ نہیں کر سکتے جبکہ بعض متاثرین کو مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن ان کا کسی کے ساتھ رابطہ نہیں ہوتا۔‘