پانچ سے دس منٹ میں سب تباہ ہو گیا: بونیر میں سیلاب متاثرین کی داستان

بونیر کے علاقے قادر نگر کے گاؤں بٹئی کے رہائشی نوید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب 15 اگست کی صبح سیلابی ریلا آیا تو لوگ اسے معمول کا ریلا سمجھ رہے تھے لیکن چند منٹوں میں اس نے سینکڑوں افراد کی جانیں نگل لیں۔

’کل 50 جنازے ادا کیے اور آج مزید لاشیں نکالی گئیں۔ یہاں اب بھی چھ سے فٹ 10 مٹی پڑی ہے، جو سیلاب لے کر آئی ہے اور اب ملبے کو ہٹا کر لاشوں کو نکالا جا رہا ہے۔‘

یہ کہنا تھا ضلع بونیر کے علاقے قادر نگر میں گاؤں بٹئی کے رہائشی نوید خان کا، جن کا اپنا گھر بھی سیلابی ریلے میں بہہ چکا ہے اور اب وہ سیلابی ریلے کے بعد اپنے گاؤں میں ریسکیو کاموں میں مصروف تھے۔

نوید کے مطابق انہوں نے لرزہ خیز مناظر دیکھے۔ جب 15 اگست کی صبح سیلابی ریلا آیا تو پہلے تو لوگ اسے معمول کا ریلا سمجھ رہے تھے لیکن چند منٹوں میں اس نے سینکڑوں افراد کی جانیں نگل لیں۔

نوید خان کے مطابق: ’گذشتہ 48 گھنٹوں میں اس گاؤں سے ہم نے 150 لاشیں نکالی ہیں جبکہ مزید کی تلاش کے لیے ملبے کو مقامی افراد اور مشینری کی مدد سے ہٹایا جا رہا ہے۔‘

قادر نگر اور پیشونئی بونیر کے سیلاب سے متاثرہ ان علاقوں میں شامل ہیں، جہاں اب بھی کئی گھرانوں کے افراد لاپتہ ہیں جبکہ  گدیزئی اور چغرزئی میں بھی سیلاب نے مالی و جانی نقصان پہنچایا ہے۔

نوید خان نے بتایا کہ ’جہاں پر ہم کھڑے ہیں، یہ ایک گراؤنڈ تھا اور سیلابی ریلے میں بہہ جانے والوں کی لاشیں زیادہ تر یہاں چھ سے 10 فٹ مٹی اور کیچڑ کے اندر دبی ہوئی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا: ’ایک گھر سے ہم نے 28 لاشیں نکالی ہیں جبکہ دوسرے گھر سے 15 بچے نکال چکے ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔‘

سیلاب کے وقت کیا ہوا؟

نوید خان نے بتایا کہ وہ اپنے گھر میں موجود تھے کہ سیلابی ریلے کے بارے میں پتہ چلا لیکن اس کے بعد لوگوں کو وقت ہی نہیں ملا کہ اپنے گھر والوں کو بچا سکیں۔

انہوں نے بتایا: ’یہ ساری تباہی پانچ سے 10 منٹ میں ہوئی ہے۔ جبکہ لوگوں کو اندازہ بھی نہیں ہوا کہ یہ کیا ہوگیا کیونکہ قادر نگر کے اس علاقے میں پہلے ہم نے اس قسم کا سیلاب نہیں دیکھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس علاقے میں سرکاری مشینری اور ریسکیو کے حکام ریلیف کاموں میں مصروف تھے۔ بعض لوگ حکام کو گھر کے لاپتہ افراد کی تفصیلات بتا رہے تھے، تاکہ انہیں تلاش کیا جا سکے اور پھر گھر والوں کی درخواست پر متعلقہ گھر سے ملبہ ہٹانے کا کام شروع کیا جاتا۔

مقامی افراد کے مطابق اموات کی تعداد سرکاری اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہے۔

پیشونئی گاؤں جو پیر بابا بازار سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، تقریباً مکمل طور پر ملیامیٹ ہوچکا ہے۔

مقامی افراد کے مطابق اسی گاؤں سے پہاڑی پر بہنے والے ایک برساتی نالے میں بادل پھٹنے کے نتیجے میں اچانک سیلابی ریلا آیا اور اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھر بھی بہا کر لایا۔

ان پتھروں کے نیچے مکانات کی چھتوں، چار دیواری کے آثار اور دیگر سامان بھی نظر آ رہا تھا۔

پیشونئی میں کچھ ایسے مکانات بھی ہیں، جہاں گھر کا کوئی فرد بھی زندہ نہیں بچا۔

بونیر میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 184 افراد جان سے جا چکے ہیں جبکہ متعدد مکانات مکمل طور تباہ جبکہ بعض کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔

اسی طرح بونیر کا مرکزی بازار پیر بابا میں تقریباً 400 کے قریب دکانوں میں کروڑوں روپے کا سامان خراب ہوگیا ہے۔

پیر بابا سے تعلق رکھنے والے محمد رفیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہاں اناج و غلے کے گوداموں، ادویات اور کپڑے کی دکانوں میں سیلابی پانی داخل ہوا، جس سے شدید مالی نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دکانوں میں اب بھی ملبے کا ڈھیر پڑا ہے اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت دکانوں سے ملبہ ہٹا رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان