لگتا ہے یہاں کوئی آباد نہیں تھا: بونیر میں سیلاب کے بعد انڈپینڈنٹ اردو نے کیا دیکھا؟

پیشونئی گاؤں بونیر میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے، جہاں بعض گھرانوں کے خاندان کے تمام افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔

16 اگست 2025 کی اس تصویر میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر کے گاؤں پیشونئی میں سیلاب کے بعد پڑے پتھر پڑے ہیں، جن کے نیچے سے بعض گھروں کے کمروں کے پردے، کچن کے برتن، چارپائیاں اور دیگر سامان بھی نظر آرہا تھا (اظہار اللہ/ انڈپینڈنٹ اردو)

خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں واقع گاؤں پیشونی کے ایک مقامی حجرے میں سیلاب سے متاثرہ مرد و خواتین بیٹھے تھے جبکہ باہر مختلف علاقوں میں مقامی افراد ملبے تلے موجود لاشیں ڈھونڈنے اور مشینری کی مدد سے انہیں نکالنے میں مصروف تھے۔

جب بھی قریبی علاقوں سے کسی لاش کو نکالا جاتا تھا تو پہلے اسے اس مقامی حجرے میں شناخت کے لیے لایا جاتا تھا۔

شناخت کے بعد چیخیں فضا میں بلند ہوتیں اور پھر لاش کی قریبی قبرستان میں پہلے سے کھودی گئی قبر میں تدفین کر دی جاتی۔

پیشونئی گاؤں بونیر میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے، جہاں بعض گھرانوں کے خاندان کے تمام افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔

اس گاؤں میںم م مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ بھاری پتھر پڑے ہیں، جو کسی خشک دریا کا منظر پیش کر رہے تھے۔

پتھروں کے نیچھے سے بعض گھروں کے کمروں کے پردے، کچن کے برتن، چارپائیاں اور دیگر سامان بھی نظر آرہا تھا۔ پہلی نظر میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کبھی کوئی آباد ہی نہیں تھا۔

گاؤں میں ایک طرف بھاری مشینری سے ایک گھر کا ملبہ اٹھایا جا رہا تھا، پوچھنے پر ایک مقامی شخص نے بتایا کہ اس گھر میں لاشیں پڑی ہیں اور انہیں نکالا جا رہا ہے۔

سیلاب کیسے آیا اور علاقے کا محل و وقوع کیا ہے؟

سیلاب نے سب سے تباہی بونیر کے مرکزی بازار پیر بابا سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع پہاڑ کے دامن میں قائم مختلف دیہات میں مچائی۔

ان دیہات میں سب سے زیادہ متاثر گاؤں پیشونئی ہوا، جہاں کچے پکے گھروں کے بیچ پہاڑوں سے آنے والا ایک برساتی نالا بہتا ہے لیکن اس میں پانی نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا اور مقامی افراد کے مطابق اس برساتی نالے میں پہلے اتنا زیادہ پانی نہیں دیکھا گیا۔

حکام کے مطابق اسی برساتی نالے میں بادل پھٹنے (کلاؤڈ برسٹ) کی وجہ سے پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوا، جس نے پہلے  پیشونئی گاؤں کو تباہ کیا اور اس کے بعد نیچے جا کر دیگر دیہات میں تباہی مچائی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم فرق صرف اتنا تھا کہ پیشونئی گاؤں میں پانی اپنے ساتھ بھاری پتھر بھی بہا کر لایا تھا جبکہ نیچے کے دیہاتوں میں پانی گھروں میں داخل ہوا تھا اور اسی وجہ سے چھ سے آٹھ فٹ تک مٹی کا ملبہ موجود تھا۔

پھر اسی پانی نے نیچے جا کر پیر بابا کے مرکزی بازار کو متاثر کیا۔

علاقے میں ریلیف کا کام جاری تھا، تاہم حکام کے مطابق عام لوگ جو مددکے لیے نہیں بلکہ تباہی کے مناظر دیکھنے آتے ہیں، ان کی وجہ سے بہت زیادہ رش بن جاتا ہے، جس سے ریلیف کے کاموں میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔

ہم نے بھی دیکھا کہ سڑکوں پر بہت زیادہ رش کی وجہ سے امداد لے جانے والی بعض گاڑیاں بھی پھنسی ہوئی تھیں۔

علاقے میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ بھی درپیش تھا کیونکہ مقامی افراد کے مطابق پانی کی سپلائی کا نظام سیلاب میں بہہ گیا تھا جبکہ مقامی کنویں سیلابی پانی سے بھر گئے تھے۔

سب سے سنگین مسئلہ علاقے میں موبائل نیٹ ورک کی بندش تھی کیونکہ مختلف علاقوں میں ریسکیو اور امدادی کارروائیاں جاری تھیں لیکن ان کا متاثرہ افراد کے ساتھ رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔

تمام سیلولر نیٹ ورکس کے سگنلز بند تھے، تاہم متاثرہ علاقوں سے تھوڑا باہر نکل کر سگنلز آنا شروع ہو جاتے تھے۔ موبی لنک جاز کی جانب سے بونیر سمیت سیلاب زدہ علاقوں میں کال کی سہولت مفت کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

نیٹ ورک کے علاوہ بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہو چکا ہے کیونکہ بجلی کے کھمبے سیلابی ریلے میں بہہ چکے ہیں۔ مقامی افراد نے مطالبہ کیا کہ نیٹ ورک اور بجلی کا نظام جلد از جلد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان