بونیر کا گاؤں جہاں جرگے نے جہیز پر ’پابندی‘ عائد کردی

جہیز پر پابندی کے حوالے سے جرگے کے ایک رکن واسط خان کا کہنا ہے کہ اس کی ضرورت تو کافی عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی مگر ان رسومات کے خلاف قدم اٹھانا مشکل تھا۔

(انڈپینڈنٹ اردو)

صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر کے گاؤں انظر میرہ میں مقامی جرگے نے شادیوں میں ’رکاوٹ‘ بننے والی رسم جہیز پر پابندی لگا دی ہے۔

پہاڑی علاقہ انظرمیرہ تحصیل چغرزئی کی یونین کونسل سورے میں ضلع شانگلہ کے بارڈر پر واقع ہے۔

جہیز پر پابندی کے حوالے سے جرگے کے ایک رکن واسط خان کا کہنا ہے کہ اس کی ضرورت تو کافی عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی مگر ان رسومات کے خلاف قدم اٹھانا مشکل تھا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے واسط خان نے بتایا کہ گاؤں کے علما نے اس حوالے سے کردار ادا کیا اور گاؤں والوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا کیا جس کے بعد سب نے اس پر اتفاق کیا کہ ان رسومات سے لوگ تنگ آچکے ہیں لہذا اسے ختم کیا جائے۔

واسط خان کا کہنا ہے کہ ’یہاں کے لوگوں کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اکثر لوگ دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اور 800 سے 900 روپے کماتے ہیں۔

’جب یہاں کسی کی بیٹی کی شادی ہو تو ایک ڈبل بیڈ پر تقریباً لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔ اسی طرح قیمتی الماریاں اور بہت سارا سامان لینا پڑتا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ سب ایک غریب آدمی کے بس کی بات نہیں تھی۔ مجبوراً ہمیں یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑا کہ جہیز سے چھٹکار حاصل کرنا ہوگا۔‘

کیا گاؤں میں جہیز پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے؟

جرگے کے ممبر واسط خان کہتے ہیں کہ ’جہیز پر مکمل پابندی تو ممکن نہیں البتہ اس میں 60 سے 70 فیصد کمی آجائے تو پھر بھی بڑی بات ہوگی۔

’ہماری کوشش ہے کہ آہستہ آہستہ یہ رسومات ختم ہو جائیں۔ کیونکہ مالی مسائل کی وجہ سے وقت پر شادیاں نہیں ہوتیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر گاؤں کے لڑکے کی آمدن بہت کم ہو یا وہ لاہور، کراچی میں دس سے 15 ہزار تنخواہ لیتا ہو اور اس کی شادی پر اخراجات لاکھوں تک ہوں، تو وہ کیسے برداشت کرے گا۔‘

’اسی طرح لڑکی کے باپ کا بھی یہی مسئلہ تھا کہ ان کی آمدن اتنی نہیں ہوتی تھی کہ وہ جہیز میں سارا سامان خرید سکیں۔ لہذا یہ شادیوں میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ انظر میرہ میں جہیز پر پابندی کے فیصلے کا اثر دیگر علاقوں پر بھی ہو رہا ہے۔ قریبی گاؤں سے لوگ رابطے کر رہے ہیں کہ یونین کونسل کی سطح پر مشترکہ طور پر معاملات پر بحث کی جائے تاکہ یہ اصلاحات پورے علاقے تک پھیل جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے علاوہ واسط خان کے مطابق مقامی جرگہ جہیز پر پابندی کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ کے موقع پر دیگر اخراجات بھی کم کرنے کے حوالے سے فیصلہ کر چکا ہے جس سے گاؤں کے لوگوں کو بہت ریلیف ملا ہے۔

جرگے کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے اپنی بیٹی کی شادی کرنے والے انظر میرہ کے رہائشی نور وہاب کہتے ہیں کہ پہلے جو جہیز کی رسم  تھی اس میں لڑکی کے والد یا والدہ کی طرف سے بہت سارا سامان لینا پڑتا تھا۔

انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے نور وہاب نے کہا کہ ’میری بیٹی کے جہیز پر چار سے پانچ لاکھ روپے کا خرچ آنا تھا مگر فیصلے کے بعد تقریباً 50 سے 60 ہزار روپے کا ہی سامان لیا، جس سے ہمیں کافی فائدہ ہوا ہے۔‘

نور وہاب نے کہا کہ اس فیصلے سے ’والدین کو کافی ریلیف مل گیا ہے کیونکہ اکثر لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے تو کسی سے قرض لے لیتے یا اپنے زیورات وغیرہ فروخت کر دیتے تھے مگر اب مشکلات انشا اللہ ختم ہونے والی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین