مصنوعی ذہانت نے بیٹریوں کے لیے ’غیرمعمولی‘ مواد دریافت کر لیا

یہ ٹیکنالوجی ایک ماحول دوست دنیا کی طرف پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے جو نہ صرف الیکٹرک گاڑیوں کو بہتر بنانے بلکہ موبائل فونز جیسی چھوٹی ٹیکنالوجی میں بھی تبدیلی لا سکیں گی۔

دو دسمبر 2024 کو ایک ملازم فرانس کی  آٹوموٹیو سیلز کمپنی  میں کام کر رہا ہے جو الیکٹرک گاڑیوں کے لیے لیتھیم آئن بیٹریاں تیار کرتی ہے (اے ایف پی)

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے ایسے نئے مواد دریافت کیے گئے ہیں جو بیٹری ٹیکنالوجی میں انقلابی تبدیلی لا سکتے ہیں۔

بیٹری ٹیکنالوجی ایک ماحول دوست دنیا کی طرف پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے اور محققین کو امید ہے کہ بیٹریاں نہ صرف الیکٹرک گاڑیوں کو بہتر بنانے میں مددگار ہوں گی بلکہ موبائل فونز جیسی چھوٹی ٹیکنالوجی میں بھی تبدیلی لا سکیں گی۔

تاہم موجودہ بیٹری ٹیکنالوجی میں کئی خامیاں ہیں۔ ہماری بیشتر ڈیوائسز میں استعمال ہونے والی لیتھیم آئن بیٹریاں کم توانائی ذخیرہ کرتی ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ توانائی ضائع کرتی ہیں اور گرمی یا دوسرے ماحولیاتی عوامل کے لیے حساس ہوتی ہیں۔

محققین ان مسائل کا حل ایک نئی قسم کی بیٹری میں دیکھتے ہیں جسے ’ملٹی ویلنٹ بیٹری‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بیٹریاں لیتھیم کے مقابلے میں زیادہ عام دستیاب عناصر استعمال کرتی ہیں، اس لیے ان کی تیاری سستی، آسان اور ماحول دوست ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ ان بیٹریوں کی ٹیکنالوجی انہیں زیادہ مؤثر بناتی ہے اور یہ موجودہ بیٹریوں سے زیادہ توانائی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان بیٹریوں میں استعمال ہونے والے ملٹی ویلنٹ آئنز جسامت میں بڑے اور زیادہ برقی بار رکھتے ہیں اس لیے انہیں بیٹری میں مؤثر طریقے سے شامل کرنا مشکل ہوتا ہے۔

اب محققین نے ’جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ (جسے چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی بوٹ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے) کی مدد سے ایسے نئے مواد تلاش کیے ہیں جو اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔

نیو جرسی انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے دیباکر دتہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’سب سے بڑی رکاوٹ یہ نہیں تھی کہ ممکنہ بیٹری کیمسٹریز موجود نہیں تھیں بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ لاکھوں مواد کے کمبینیشن کو آزمانا ممکن نہیں تھا۔ ہم نے جنریٹیو اے آئی کو اس لیے اپنایا تاکہ ہم تیزی سے ان تمام امکانات میں سے کارآمد کمبینیشن تلاش کر سکیں جو ملٹی ویلنٹ بیٹریوں کو قابل عمل بنا سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’یہ طریقہ ہمیں ہزاروں ممکنہ مواد کا جلدی سے جائزہ لینے دیتا ہے، جس سے لیتھیم آئن ٹیکنالوجی کے زیادہ مؤثر اور پائیدار متبادل کی تلاش بہت تیز ہو گئی ہے۔‘

محققین نے مصنوعی ذہانت  کے ذریعے مختلف مواد کو چنا اور جانچا کہ آیا یہ بیٹریوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں یا نہیں۔

پروفیسر دتہ کے مطابق: ’اے آئی  ٹولز نے ہماری دریافت کے عمل کو زبردست حد تک تیز کیا، جس کے نتیجے میں پانچ مکمل طور پر نئے پورس ٹرانزیشن میٹل آکسائیڈ ڈھانچے سامنے آئے جن میں غیر معمولی صلاحیت ہے۔ ان مواد میں بڑے اور کھلے راستے ہیں جو ان بھاری ملٹی ویلنٹ آئنز کو تیزی اور حفاظت سے منتقل کرنے کے لیے مثالی ہیں اور یہ نیکسٹ جنریشن بیٹریوں کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے۔‘

اے آئی  سے یہ مواد تلاش کرنے کے بعد محققین نے روایتی سمیولیشنز کے ذریعے ان کا مزید جائزہ لیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ حقیقی دنیا میں استعمال کیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔

یہ تحقیق سائنسی جریدے ’سیل رپورٹس‘ میں Generative AI for discovering porous oxide materials for next-generation energy storage کے عنوان سے شائع ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی