زکربرگ کا پرومیتھیس اے آئی پروجیکٹ دنیا کو کیسے بدل سکتا ہے؟

اگر سوشل میڈیا گذشتہ بڑی ٹیکنالوجی کی جنریشن کی پہچان تھا، تو اگلی جنریشن کی علامت مصنوعی ذہانت ہے۔ اور اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ اوپن اے آئی ایک جانا پہچانا نام بن سکتا ہے۔

18 جولائی 2024 کو ایگل ماؤنٹین، یوٹاہ میں نئے مکمل ہونے والے میٹا کے فیس بک ڈیٹا سینٹر کا بیرونی منظر (جارج فری / اے ایف پی)

نومبر 2022 سے مصنوعی ذہانت کی دنیا تقریباً ایک ہی ٹول کے گرد گھوم رہی ہے اور وہ ہے چیٹ جی پی ٹی۔ گذشتہ ہفتے کمپنی کی جانب سے جاری کردہ نئے اعداد و شمار سے پتہ چلا کہ صارفین اوپن اے آئی کے چیٹ بوٹ سے روزانہ ڈھائی ارب سوالات پوچھتے یا ہدایات دیتے ہیں، جب کہ حیران کن طور پر ہر ہفتے 50 کروڑ لوگ اس چیٹ بوٹ سے رابطہ کرتے ہیں۔

اگر سوشل میڈیا گذشتہ بڑی ٹیکنالوجی کی جنریشن کی پہچان تھا، تو اگلی جنریشن کی علامت مصنوعی ذہانت ہے اور اگرچہ ایسا لگتا ہے کہ اوپن اے آئی ایک جانا پہچانا نام بن سکتا ہے، لیکن ایک شخص ہیں جو اس رجحان کو بدلنا چاہتے ہیں۔ وہ ہیں میٹا کے سربراہ مارک زکربرگ۔

زکربرگ جنہوں نے 2004 میں فیس بک متعارف کروایا اور اب ان کی دولت 247 ارب ڈالر ہو چکی ہے، نے گذشتہ چند برسوں میں اپنی ڈیجیٹل سلطنت کو وٹس ایپ، انسٹاگرام اور تھریڈز تک پھیلا دیا۔

انہوں نے اوپن اے آئی سے مصنوعی ذہانت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے بڑے وعدے بھی کیے اور اپنی اعلیٰ ٹیم کے بعض ارکان کو اپنے اے آئی پروجیکٹ ’پرومیتھیس‘ میں شامل کرنے کے لیے اربوں ڈالر کی پیشکش کی ہے۔ یہ منصوبہ اگلے سال کے شروع میں متوقع ہے اور اس کا نام یونانی دیوتا پر رکھا گیا ہے، جس نے باقی دیوتاؤں سے آگ چرا کر انسانوں کو دی تھی۔

فرانسیسی کثیر ملکی بینکنگ اور فنانشل سروسز کمپنی بی این پی پاریبا کے تحقیقی تجزیہ کار سٹیفن سلونسکی کہتے ہیں کہ ’میٹا کو اپنی تخلیقی مصنوعی ذہانت کی حکمت عملی میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث کمپنی نے اے جی آئی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کے خدشے کے پیش نظر زیادہ تیزی سے پیسہ خرچ کرنا شروع کر دیا۔‘

اس سرمایہ کاری کی وجہ، جو کمپنی کی پہلے کی اسی طرح کی کوششوں پر خرچ ہونے والی رقم کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، کم از کم اتنے کم عرصے میں، یہ خواہش ہے کہ مقابلے میں پیچھے رہ جانے کی کمی پوری کی جائے، خاص طور پر اوپن اے آئی سے، جو اس وقت ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کے حوالے سے میٹا کی جگہ لیتی جا رہی ہے۔

اسی طرح کے خدشات گوگل کو بھی مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اپنی مصنوعی ذہانت کے ماڈل ’جیمینائی‘ تیار کرنے پر خطیر رقم خرچ کرے اور اوپن اے آئی کے ویب براؤزر کی طرف سے اپنی کروم ایپ کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرے۔ ایلون مسک بھی اپنے ایکس اے آئی ٹول پر کام تیز کر رہے ہیں، کیوں کہ اسے مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ’انتہائی‘ وجودی خدشات لاحق ہیں۔

میٹا ان چند کمپنیوں میں سے ایک ہے جو مصنوعی ذہانت پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کی استطاعت رکھتی ہیں۔ اگرچہ اوپن اے آئی اور دیگر اداروں کے پاس بھی پیسے کی کمی نہیں، لیکن وہ ایسے سرمایہ کاروں پر انحصار کرتے ہیں جو کسی نہ کسی مرحلے پر اپنی سرمایہ کاری کا منافع دیکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف میٹا کے پاس نقد رقم کی کمی نہیں، کیوں کہ اس نے گذشتہ سال 134 ارب ڈالر کا منافع کمایا، جس کا مطلب ہے کہ اس کی مالی حیثیت زیادہ مستحکم ہے۔

اسی وجہ سے زکربرگ کی یہ خواہش کہ مصنوعی ذہانت کی مارکیٹ پر قبضہ کر کے اسے میٹا کی شناخت بنا دیں، سنجیدگی سے لینی ہو گی۔ بہت کم لوگ اتنی بڑی رقم مختص کر سکتے ہیں، جتنی انہوں نے صرف گذشتہ چند ہفتے میں لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ حریفوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان پر مصنوعی ذہانت کے ماہرین خریدنے کے حوالے سے کافی طنزیہ تبصرے کیے جا رہے ہیں۔

اس کے باوجود، سب لوگ اس بات پر قائل نہیں کہ ہم جلد ہی ایک ایسی دنیا میں ہوں گے جہاں زکربرگ کی نگرانی میں مصنوعی ذہانت استعمال ہو رہی ہو۔ ایک سابقہ میٹا اہلکار، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی کیوں کہ ان کے موجودہ ادارے نے انہیں اپنی سابقہ ملازمت کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات کرنے کی اجازت نہیں دی، کہتے ہیں کہ ’میرا ذاتی یقین ہے کہ ایسی دنیا وجود میں نہیں آئے گی۔‘

وہ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا زکربرگ کی کوششوں کی کمی کی وجہ سے نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ جب گوگل نے 2014 میں ڈیپ مائنڈ خریدی تو اصل میں مارک زکربرگ ہی وہ شخص تھے جو ڈیپ مائنڈ کو خریدنا چاہتے تھے۔ وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکے اور پھر بالکل اسی طرح خریداری کی دوڑ میں لگ گئے جیسا کہ وہ آج کل کر رہے ہیں، جس میں یان لی کُن کی خدمات حاصل کرنا بھی شامل ہے۔‘

یان لی کن مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ممتاز محقق ہیں۔ قبل ازیں انہوں نے فیس بک اے آئی ریسرچ کی بنیاد رکھی اور وہ اس وقت میٹا کے چیف اے آئی سائنس دان ہیں۔ انہوں نے اوپن اے آئی اور گوگل ڈیپ مائنڈ پر تنقید کی کہ وہ بہت زیادہ محدود یا خوف کا شکار ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانوں کی مدد کرے گی۔ نہ تو انہیں بدل دے گی اور نہ ہی کسی قیامت خیز خطرے کا سبب بنے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم مصنوعی ذہانت کے اگلے دور کے ایسے سسٹمز پر کام کر رہے ہیں، جو استدلال کر سکیں، انسانوں کی طرح دنیا کو سمجھ سکیں اور منصوبہ بندی کر سکیں۔‘

میٹا کے سابق اہلکار کا خیال ہے کہ زکربرگ آج پھر سے ٹیکنالوجی کی خریداری کی دوڑ دہرانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ میٹا اب وہ کمپنی نہیں رہی، جو 2014 میں تھی۔ ان کے بقول: ’وہ بہت زخم خوردہ ہے۔ وہ بہت سی کارپوریٹ مشکلات سے گزر چکی ہے۔‘

آج کل میٹا کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ مالیاتی صورت حال بدل چکی ہے کیوں کہ اعلیٰ درجے کے مصنوعی ذہانت کے ماہرین کو کروڑوں ڈالر معاوضہ دینا پڑتا ہے اور انہیں راک سٹار کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ یہ دونوں وجوہات باصلاحیت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا مزید مشکل اور مہنگا بنا دیتی ہیں۔

میٹا کو مصنوعی ذہانت کی اپنی ٹیم میں باصلاحیت لوگوں کو لانے میں کچھ کامیابی بھی ملی ہے۔ حریف کمپنی سکیل اے آئی کے بانی، الیگزینڈر وانگ کو جون میں چودہ ارب 30 کروڑ ڈالر کے معاہدے کے تحت ان کی کمپنی میں شیئرز خرید کر میٹا میں شامل کیا گیا۔

اب وانگ میٹا میں چیف اے آئی آفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ نیٹ فریڈمین، جو کوڈنگ پلیٹ فارم گٹ ہب کے سابق سی ای او ہیں، بھی شامل ہیں، جو ایک اور نئے رکن ڈینیئل گروس کے ساتھ مل کر میٹا کی نئی سپر انٹیلی جنس لیب کی مشترکہ قیادت کر رہے ہیں۔

اوپن اے آئی کے تقریباً ایک درجن ملازمین، جن میں کچھ وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے چیٹ جی پی ٹی کے بہت بنیادی ماڈل تیار کیے، میٹا کا حصہ بن چکے ہیں۔ اسی طرح ایپل کے بھی چند اعلیٰ ماہرین کو میٹا نے اپنی طرف راغب کیا۔ بعض خبروں کے مطابق، ان ماہرین کو جو رقم پیش کی جا رہی ہے وہ یقین کرنا مشکل ہے۔ بعض افراد کو چار سال میں 30 کروڑ ڈالر تک مل سکتے ہیں۔

پھر بھی مصنوعی ذہانت کے بعض ماہرین کے لیے صرف پیسہ کافی نہیں کہ وہ زکربرگ اور اس کی ٹیم میں شامل ہو جائیں۔ انڈسٹری میں یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ بعض افراد کو میٹا میں آنے کے لیے اربوں ڈالر کی پیشکش کی گئی، لیکن انہوں نے اسے اس لیے مسترد کر دیا کیوں کہ وہ زکربرگ کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے۔

یہ اعداد و شمار دا وال اسٹریٹ جرنل نے بھی دہرائے، جس کے مطابق زکربرگ نے اوپن اے آئی کے چیف ریسرچ آفیسر مارک چن کو ذاتی طور پر ایک ارب ڈالر کی پیشکش کی کہ وہ اپنی کمپنی چھوڑ کر میٹا میں شامل ہو جائیں۔

میٹا صرف باصلاحیت افراد پر کھل کر سرمایہ نہیں لگا رہا بلکہ وہ اس بنیادی ڈھانچے پر بھی پیسہ لگا رہا ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کو اپنانے کے لیے ضروری ہے۔ زکربرگ اور دوسرے لوگوں کو اس سے منافع کمانے کی امید ہے۔ اس مہینے، زکربرگ نے اپنی سوشل نیٹ ورک تھریڈز کے ذریعے اعلان کیا کہ میٹا اپنے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو چلانے کے لیے دیو ہیکل ڈیٹا سینٹرز بنانے پر اربوں ڈالر خرچ کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زکربرگ نے انکشاف کیا کہ پرومیتھیس اوہائیو میں قائم ہو گا اور اس کے دیو ہیکل ڈیٹا سینٹر کا رقبہ تقریباً مین ہیٹن جزیرے کے برابر ہو گا۔ اسی طرح کا ایک اور بڑا ڈیٹا سینٹر اس دہائی کے اختتام تک لوئزیانا میں بنایا جائے گا۔ صرف پرومیتھیس کو چلانے کے لیے ایک گیگاواٹ توانائی درکار ہو گی، جو تقریباً 10 لاکھ گھروں کے لیے کافی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی مصنوعی ذہانت کی اخلاقیات کی ماہر کیریسا ویلیز کہتی ہیں کہ یہ مالی سرمایہ کاری ’اس سمت میں سنجیدہ عزم کو ظاہر کرتی ہے۔‘

بڑا سوال یہ ہے کہ اگر زکربرگ کی بھاری سرمایہ کاری کامیاب رہی اور میٹا نے نہ صرف اوپن اے آئی بلکہ گوگل سمیت اپنے دیگر مضبوط حریفوں کو پیچھے چھوڑ دیا تو پھر دنیا کیسی ہو گی؟ اگر مقابلہ کھل کر ہونے لگا ہے، تو کیا اس کے ساتھ حفاظتی حدود بھی ختم ہو جائیں گی؟

ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ مصنوعی ذہانت ہماری زندگی میں مزید زیادہ شامل ہو جائے گی۔ یونیورسٹی کالج لندن کے قانون کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مائیکل ویل کہتے ہیں کہ ’میٹا پہلے ہی ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو لوگوں کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں گہرائی تک شامل ہے۔‘

انہوں نے فیس بک سے لے کر انسٹاگرام اور وٹس ایپ تک ہر اس پلیٹ فارم کی طرف اشارہ کیا، جس پر ہم ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں۔ ’نتیجے کے طور پر ان کے پاس اوپن اے آئی کے مقابلے میں زیادہ صلاحیت ہے کہ وہ ایسے ٹولز متعارف کروا سکیں جو لوگوں کے ڈیٹا اور رابطوں تک رسائی حاصل اور انہیں استعمال کرتے ہیں۔‘

ویل کہتے ہیں کہ یہ لازمی طور پر کوئی اچھی بات نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت لوگوں کو اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ مصنوعات کس طرح ان خدمات کا حصہ بنائی جائیں گی جن کا مقصد فائدہ پہنچانا اور اہمیت پیدا کرنا ہے، نہ کہ ان باتوں سے متاثر ہونا جو صرف میڈیا کوریج اور مارکیٹنگ کے شوروغوغا کے لیے ہوتی ہیں۔‘

آکسفورڈ کی کیریسا ویلیز بھی اسی تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت جو مصنوعی ذہانت ہم استعمال کر رہے ہیں اور اس کا جو ڈیزائن ہم دیکھ رہے ہیں وہ بے حد مداخلت کرنے والا ہے اور میٹا شاید ان سب میں سب سے کم قابل اعتماد ہے جو کچھ کہہ رہی ہے۔‘

وہ میٹا کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ فیس بک شروع میں کس طرح ڈیزائن کیا گیا جس میں مارک زکربرگ کے وہ بدنام زمانہ ابتدائی تبصرے بھی شامل ہیں، جن میں انہوں نے کہا کہ جو لوگ پلیٹ فارم کے ابتدائی دنوں میں انہیں اپنا ڈیٹا دے رہے ہیں وہ ’احمق‘ ہیں۔ وہ تنازع بھی جس کا کمپنی کو کیمبرج اینالٹیکا کے ساتھ سامنا کرنا پڑا۔

ویلیز کے بقول: ’کسی ایسی کمپنی کے بارے میں سوچنا جس کے کاروباری ماڈل کی بنیاد اب بھی نظر رکھنے پر ہے اور بہت زیادہ نگرانی کو بنیاد بنا کر مصنوعی ذہانت کی تیاری یقیناً تشویش کی بات ہے۔‘

میٹا نے اس خبر پر تبصرے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔

تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مصنوعی ذہانت سے پیسہ کما سکتا ہے تو وہ زکربرگ ہیں۔ یونیورسٹی کالج لندن کے ویل کہتے ہیں کہ ’میٹا کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اوپن اے آئی کے برعکس ٹیکنالوجی کو منافعے میں بدلنے کا تجربہ رکھتا ہے، نہ کہ صرف سرمایہ کاروں کے پیسے پر چلا جائے۔

’کاروباری لحاظ سے دیکھا جائے تو اوپن اے آئی شاید اب یہ بات محسوس کر رہی ہے، جیسا کہ انہوں (ماہرین نے) مائیکروسافٹ کے معاملے میں سمجھا کہ اب اس کے ساتھ بڑے لوگ موجود ہیں۔ 2025 میں زکربرگ کا ان میں شمار ہو گا یا نہیں؟ اس کے لیے انتظار کرنا اور دیکھنا ہو گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی