مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے محققین اس بات کا جائزہ لینے جا رہے ہیں کہ انسان اپنے پالتو جانوروں سے ’باتیں‘ کیسے کر سکتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے جانوروں کی شعور پر تحقیق کے لیے پہلا سائنسی ادارہ قائم کر دیا گیا ہے۔
لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس میں قائم چار کروڑ پاؤنڈ کے سرمائے سے بننے والا جیریمی کولر سینٹر فار اینیمل سینشنس 30 ستمبر کو پالتو جانوروں کے علاوہ دیگر جانوروں پر اپنی تحقیق کا آغاز کرے گا جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہوں گے۔
اس کے منصوبوں میں ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اے آئی کی مدد سے انسان اپنے پالتو جانوروں سے ’باتیں‘ کیسے کر سکتے ہیں اور اس میں کیا مسائل پیش آ سکتے ہیں جب کہ ممکنہ خطرات سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
ادارے کے پہلے ڈائریکٹر پروفیسر جوناتھن برچ نے دا گارڈین کو بتایا: ’ہم اپنے پالتو جانوروں میں انسانی خصوصیات دیکھنا پسند کرتے ہیں اور اے آئی کی آمد کے بعد آپ کے پالتو جانور کے بات کرنے کے طریقے بالکل نئے درجے پر چلے جائیں گے۔
لیکن اے آئی اکثر ایسے جوابات تیار کر دیتی ہے جو صارف کو خوش کریں، چاہے ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اگر یہ رجحان پالتو جانوروں کی فلاح کے معاملے میں سامنے آیا تو یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔
’ہمیں فوری طور پر ایسے اصولوں کی ضرورت ہے جو جانوروں کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ اور اخلاقی استعمال کو منظم کریں۔ اس وقت اس شعبے میں مکمل طور پر کسی قسم کا ضابطہ موجود نہیں۔ سینٹر کا مقصد یہ ہے کہ اخلاقی رہنما اصول تیار کیے جائیں جنہیں عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے۔‘
یہ سینٹر غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر اس مقصد کے لیے رہنمائی اور تحقیق پر کام کرے گا، تاکہ ایسے اصول اور سفارشات سامنے آئیں جن کے لیے عالمی سطح پر لابنگ کی جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیویارک یونیورسٹی کے سینٹر فار انوائرنمنٹل اینڈ اینیمل پروٹیکشن کے ڈائریکٹر جیف سیبو نے اخبار کو بتایا کہ جانوروں کے شعور اور فلاح کے مسائل، جانوروں پر اے آئی کے اثرات، اور جانوروں کے بارے میں عوامی رویے ’وہ سب سے اہم، مشکل اور نظرانداز کیے گئے مسائل ہیں جن کا ہمارے معاشرے کو سامنا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’انسان اس دنیا کو کروڑوں انواع اور بے شمار جانوروں کے ساتھ بانٹتے ہیں اور ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ہماری سرگرمیاں پوری دنیا کے جانوروں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔‘
پروفیسر کرسٹن اینڈریوز، جو اس نئے سینٹر کی ٹرسٹی ہیں، نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ نیا منصوبہ انسان کے شعور اور اس کی حقیقت جیسے سوال کا جواب بھی دے سکتا ہے، جو ان کے نزدیک سائنس کا سب سے بڑا سوال ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم اب تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ انسانوں کو شعور کس چیز سے ملتا ہے، یا کوئی بھی شعور حاصل کرنا یا ختم کرنا کیوں شروع کرتا ہے۔ لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ جوابات حاصل کرنے کا راستہ سادہ نظاموں کا مطالعہ کرنا ہے۔ سائنس نے جینومیات اور طب میں سادہ جانداروں کے مطالعے سے زبردست پیش رفت کی ہے۔‘
© The Independent