وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اعلان کیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی 90 روزہ ’آر یا پار‘ سیاسی تحریک کا آغاز گذشتہ (ہفتے) شب سے ہو چکا، جس کا مقصد عوام کے آئینی حقوق کی بازیابی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی رہنما نے اسے ’نوکری پکی کرنے‘ کی کوشش قرار دیا ہے۔
علی امین گنڈاپور نے پی ٹی آئی کی تحریک کے آغاز کا اعلان اتوار کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پانچ اگست کوئی ڈیڈ لائن نہیں بلکہ اس 90 روزہ تحریک کا عروج ہو گا۔‘ نیز اسی روز قوم کو آئندہ کا لائحہ عمل دیا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ عمران خان خود اس تحریک کی قیادت کریں گے اور ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا ہمیں اس موجودہ ماحول میں سیاست کرنی بھی ہے یا کوئی اور راستہ اپنانا پڑے گا کیونکہ ہمیں تو سیاست کرنے ہی نہیں دی جا رہی۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکن پاکستان کے ہر شہر اور ہر گلی میں احتجاج کریں گے۔ تاہم انہوں نے کہا ’لکھ کر دیتا ہوں کہ اس تحریک میں کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر احتجاج کرکے اپنے حقوق مانگنا ہمارا آئینی حق ہے۔ امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ’کسی جماعت پر اتنا ظلم نہیں ہوا جتنا پی ٹی آئی پر ہوا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم لاہور میں بھی پرامن طریقے سے آئے اور پرامن طریقے سے ہی واپس جائیں گے۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ عمران خان مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ مذاکرات صرف فیصلہ سازوں سے ہوں گے۔
انہوں نے ملک کی سکیورٹی صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ادارے اپنا کام نہیں کر رہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ’ہمارے دور میں دہشت گردی ختم ہو گئی تھی، لیکن آج ملک ایک بار پھر چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔‘
علی امین مین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ یہ تحریک نہ صرف سیاسی بقا کی جنگ ہے بلکہ آئین و قانون کی بالادستی کی بحالی کے لیے بھی ہے۔
حکومتی موقف
ترجمان پنجاب حکومت عظمیٰ بخاری نے اتوار کے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے 90 روزہ احتجاجی تحریک کی بات دراصل اپنی نوکری پکی کرنے کی کوشش ہے۔‘
عظمیٰ بخاری نے الزام عائد کیا کہ علی امین گنڈاپور خود ماضی میں کئی بار اپنے کارکنوں کو میدان میں چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں، اس لیے ان کی قیادت اور دعووں پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے لاہور جلسے پر براہ راست اعتراض نہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر جلسے میں بندوقیں اور کلاشنکوفیں لائی گئیں تو قانون حرکت میں آئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کی ترقی، خوشحالی اور سکون کو آگ نہ لگائی جائے۔‘
عظمیٰ بخاری نے طنزیہ انداز میں تجویز دی کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اپنی کابینہ کے ساتھ پنجاب کا ’مطالعاتی دورہ‘ کریں تاکہ سیکھ سکیں کہ گڈ گورننس کیا ہوتی ہے اور عوام کو سہولیات کیسے دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’انہیں یہاں آ کر دیکھنا چاہیے کہ صفائی کا نظام کیسے چلتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی ایک طرف این آر او کی تلاش میں مارے مارے پھر رہی ہے اور دوسری جانب دعویٰ کرتی ہے کہ سیاسی حکومت سے نہیں بلکہ فیصلہ سازوں سے بات کرے گی۔
ترجمان پنجاب حکومت نے کہا، ’جمہوری لوگ ہمیشہ سیاسی حکومت سے بات کرتے ہیں۔ جلد یا بدیر پی ٹی آئی کو بھی سیاسی اور جمہوری لوگوں سے بات کرنا ہو گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عظمیٰ بخاری کی پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کی قیادت، احتجاجی تحریک اور خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی پر کڑی تنقید کی گئی۔
علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت ان دنوں لاہور میں موجود ہے، جہاں عمران خان کی رہائی کے لیے باقاعدہ عوامی تحریک کے آغاز اور ملک گیر احتجاجی حکمتِ عملی کی تیاری پر غور کیا جا رہا ہے۔
یہ تحریک پانچ اگست کو اپنے عروج پر پہنچے گی، جو سابق وزیرِ اعظم کی گرفتاری کو دو سال مکمل ہونے کی علامت ہو گی۔
گذشتہ ایک سال کے دوران تحریک انصاف نے کئی احتجاجی مظاہرے کیے، جن میں سے بیشتر پُرتشدد شکل اختیار کر گئے۔
گذشتہ شام علی امین گنڈاپور کی قیادت میں ارکانِ اسمبلی کا ایک قافلہ اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور پہنچے تھے۔