کیا پی ٹی آئی کے ’آزاد‘ اراکین خیبر پختونخوا حکومت گرا سکتے ہیں؟

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین اب پارٹی کا حصہ نہیں رہے۔ کیا وہ آزاد حیثیت میں حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لا سکتے ہیں؟

24 جون، 2025 کو سیشن کے دوران خیبر پختونخوا اسمبلی کا ایک منظر (صوبائی اسمبلی خیبر پختونخوا/ فیس بک)

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے حالیہ فیصلے کے بعد اعلامیہ جاری کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ اراکین کو اب پارٹی کا رکن تصور نہیں کیا جائے گا۔

الیکشن کمیشن نے 24 اور 29 جولائی 2024 کو جاری کردہ اپنے سابقہ اعلامیے واپس لیتے ہوئے کہا کہ اب ان اراکین کی حیثیت آزاد ہو گی۔ 

ساتھ ہی، مخصوص نشستوں کے حوالے سے نئی فہرستیں بھی جاری کی گئی ہیں جن میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کی بجائے دیگر جماعتوں کو الاٹ کی گئی ہیں۔

2024 کے عام انتخابات سے قبل سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی وجہ سے اس کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا تھا۔ 

اس پر پی ٹی آئی نے اپنے امیدوار تو کھڑے کیے مگر وہ آزاد حیثیت میں اور مختلف انتخابی نشانات پر انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور ہوئے۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو بھاری مینڈیٹ ملا۔ انتخابی قوانین کے تحت ان آزاد امیدواروں کو انتخابی نتائج کے بعد تین دن کے اندر کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ہوتی ہے۔ 

پی ٹی آئی کا انتخابی نشان موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ امیدوار پی ٹی آئی میں باقاعدہ شامل نہیں ہو سکے، چنانچہ انہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تاکہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں مل سکیں۔

تاہم سنی اتحاد کونسل نے انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں کے لیے کوئی فہرست فراہم نہیں کی تھی، اور نہ ہی وہ کوئی نشست جیت پائی، جس کی بنیاد پر اس کے دعوے کو چیلنج کیا گیا۔

 

سپریم کورٹ نے 12 جولائی 2024 کو فیصلہ دیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد اراکین جنہوں نے بیان حلفی پی ٹی آئی کے نام پر جمع کروایا، وہ 15 دن میں پی ٹی آئی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ 
 
اس فیصلے کی بنیاد پر خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے حکومت بنائی اور مخصوص نشستیں حاصل کیں۔

تاہم وفاقی حکومت نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے نظرثانی کی اپیل دائر کی، جس پر اب سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے فیصلہ دیتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا، جس کے مطابق یہ اراکین اب دوبارہ آزاد تصور ہوں گے اور ان سے مخصوص نشستوں کا حق بھی واپس لے لیا گیا ہے۔

کیا آزاد اراکین حکومت گرا سکتے ہیں؟
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کے مطابق چونکہ اب یہ تمام اراکین آزاد ہیں، اس لیے تین دن میں جماعت میں شامل ہونے کی قانونی پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ 
 
ان کے بقول، یہ ’شتر بے مہار‘ آزاد اراکین ہیں جو اپوزیشن سے مل کر تحریک عدم اعتماد لا سکتے ہیں۔
 
تاہم پی ٹی آئی کے قانونی مشیر بیرسٹر علی گوہر درانی کا مؤقف مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات کے بعد جن 90 پی ٹی آئی حمایت یافتہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، وہ اب بھی اسی جماعت کا حصہ تصور ہوں گے۔ 
 

ان کے مطابق سپریم کورٹ کے نئے فیصلے نے سابقہ فیصلے کالعدم کر دیے اور چونکہ ان اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کیا تھا، اس لیے وہ اسی جماعت سے منسلک رہیں گے۔

بیرسٹر گوہر خان نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ الیکشن کمیشن نے 25 اپریل، 2024 کو بھی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا اعلامیہ جاری کیا تھا جو تاحال مؤثر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

الیکشن کمیشن کے ایک عہدے دار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ سنی اتحاد کونسل اب پارلیمانی پارٹی نہیں رہی، اس لیے ان اراکین کو آزاد ہی تصور کیا جائے گا۔ 

البتہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ رائے حتمی نہیں اور اس پر مزید مشاورت کی جائے گی۔

خیبر پختونخوا حکومت کو خطرہ؟

خیبر پختونخوا اسمبلی میں اس وقت پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین کی تعداد 93 ہے۔ مخصوص نشستوں کے خاتمے کے بعد اپوزیشن کی مجموعی تعداد 52 ہو گئی ہے، جبکہ تحریک عدم اعتماد کے لیے کم از کم 73 اراکین درکار ہیں، یعنی اپوزیشن کو مزید تقریباً 21 اراکین کی حمایت درکار ہو گی۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے واضح کیا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا حکومت گرانے کے کسی بھی غیر جمہوری عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔ 

پارٹی کے مرکزی ترجمان انجینیئر احسان اللہ کے مطابق بعض جماعتیں اپوزیشن کی حکومت بنانا چاہتی ہیں، مگر اے این پی ایسے کسی منصوبے کا حصہ نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست