سپریم کورٹ کا مخصوص نشستیں کیس پر فیصلہ، تحریک انصاف سیٹوں سے محروم

سپریم کورٹ نے پانچ کے مقابلے میں سات کی اکثریت سے نظر ثانی درخواستیں منظور کیں۔ جسٹس امین الدین نے فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پارلیمان کی مخصوص نشستیں ملنے پر حکمران اتحاد کی نظرثانی درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ درخواستیں منظور کر لیں ہیں، جس کے بعد پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں خواتین اور اقلیتوں کی سیٹوں سے محروم ہو گئی ہے۔

جسٹس امین الدین نے جمعے کی شام سپریم کورٹ آف پاکستان کے کورٹ روم میں فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

سپریم کورٹ نے  پانچ کے مقابلے میں سات کی اکثریت سے نظر ثانی کی درخواستیں منظور کر لیں اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔

کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بنچ نے کی۔ درخواستوں کو سات سے پانچ ججوں کی اکثریت سے منظور کیا گیا، جس میں جسٹس امین الدین خان، مسرت ہلالی، نعیم اختر افغان، محمد ہاشم خان کاکڑ، عامر فاروق اور علیم حکیم نجفی نے حق میں ووٹ دیا۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب پارلیمان میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے مختص نشستیں پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو ملیں گی۔

الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشتیں نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ پشاور ہائی کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

سنی اتحاد کونسل نے الیکشن کمیشن فیصلہ  جب کہ سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔

جمعے کو سماعت میں کیا ہوا؟

اس سے قبل آج ہی اس کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ تمام 80 افراد پہلے مجلس وحدت المسلمین میں جا رہے تھے،  اگر یہ اس جماعت میں جاتے تو مخصوص نشستیں لے سکتے تھے کیونکہ مجلس وحدت المسلمین ایک نشست جیتی ہوئی تھی۔‘

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے ’کاش یہ آپ سے مشورہ کرتے۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایم ڈبلیو ایم میں جاتے تو عوامی منشا کا مسئلہ نہ بنتا اور نہ یہ کیس آتا۔

پاکستان تحریک انصاف کی رہنما کنول شوزب روسٹرم پر آئیں، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ’آپ نے کوئی بات کہنا ہے تو کہہ لیں۔ آپ نے سنی اتحاد میں شمولیت کیوں کی؟ پی ٹی آئی میں کیوں نہیں گئے؟‘

اس پر کنول شوزب نے کہا کہ ’ہمارا 24 دسمبر کو انتخابی نشان چھین لیا گیا تھا۔‘

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل کرنے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا، جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ مختصر فیصلہ آج ہی سنایا جائے گا۔‘

سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں اٹارنی جنرل نے جمعے کو اپنے دلائل مکمل کیے، جس کے ساتھ مخصوص نشستوں کے نظر ثانی کیس کی سماعت مکمل ہوئی۔

اس موقع پر جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ کچھ دیر میں مختصر فیصلہ سنائیں گے۔

جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سننے سے معذرت

قبل ازیں مخصوص نشستوں کا نظرثانی کیس سننے والے آئینی بینچ کے گیارہ ججوں میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے کیس سننے سے معذرت کی۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ ’حامد خان ایڈووکیٹ نے ان پر اعتراض کیا ہے۔ عوام میں جج کی جانبداری کا تاثر جانا درست نہیں ہے۔ اس لیے بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔‘

بینچ ٹوٹنے کے بعد آئینی بینچ نے وقفہ کیا اور دس ججوں کے ساتھ دوبارہ سماعت شروع کی۔

حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’قاضی فائز عیسیٰ کیس میں طے ہو چکا ہے کہ اصل کیس سننے والے ججوں کی تعداد سے کم ججز نظرثانی نہیں سن سکتے۔ 13 ججوں کے فیصلے پر نظر ثانی 10 جج نہیں کر سکتے۔‘

حکومتی متاثرہ ارکان کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر کوئی جج کیس سننے سے معذرت کر لے تو بقیہ ججوں کا بینچ فل کورٹ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ دو جج پہلے فیصلہ دے چکے۔ آج ایک جج نے معذرت کی ہے۔‘

عدالت نے آئینی بینچ کی تشکیل پر حامد خان کا اعتراض مسترد کردیا۔

سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواستوں پر آج 17ویں سماعت تھی۔ سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے 12 جولائی 2024 کو آٹھ ججز کی اکثریت سے نشستیں پی ٹی آئی کو دیں تھیں۔

سپریم کورٹ میں جولائی 2024 میں مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور اگست میں الیکشن کمیشن نے نظر ثانی درخواستیں دائر کیں۔ سپریم کورٹ کے 13 رکنی آئینی بینچ میں چھ مئی کو نظرثانی درخواستیں مقرر کیں تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مخصوص نشستوں کا معاملہ

قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں۔ جن میں سے آٹھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔

آٹھ حکمران اتحاد کی جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہے۔ آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہوئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ معطل کرنے کے بعد تعداد دوبارہ 208 ہو گئی۔ جس کے باعث حکومت تو قائم رہے گی لیکن حکومت اب دو تہائی اکثریت سے محروم ہو گئی جو کسی بھی بل کی منظوری میں اہم ہے۔ 

سنی اتحاد کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے۔ جس میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔ 26 خیبر پختونخواہ اسمبلی، 27 پنجاب اسمبلی اور دو سندھ اسمبلی سے ہیں۔ 

پارلیمان میں جماعتوں کی نمائندگی کتنی ہے؟

قومی اسمبلی میں اس وقت 13 سیاسی جماعتیں ہیں، جن میں سے آٹھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ آٹھ حکمران اتحاد کی جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں جو دو تہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہے۔ کسی بھی آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ 

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہوئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے بعد یہ تعداد دوبارہ 208 ہو گئی ہے۔ اس کے باعث حکومت تو قائم رہے گی لیکن حکومت اب دو تہائی اکثریت سے محروم ہو گئی ہے جو کسی بھی آئینی ترمیم کی منظوری میں اہم ہے۔

مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی بینچ کا فیصلہ کیا تھا؟

پاکستان کی سپریم کورٹ نے 12 جولائی، 2024 کو مخصوص نشستوں سے متعلق پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریکِ انصاف مخصوص نشستوں کی حق دار ہے۔

سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ ’انتخابی نشان ختم ہونے سے کسی سیاسی جماعت کا الیکشن میں حصہ لینے کا حق ختم نہیں ہوتا۔ پی ٹی آئی 15 روز میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے فہرست جمع کرائے۔‘

سپریم  کورٹ کے 13 ججز میں سے آٹھ نے فیصلے کی حمایت کی تھی جب کہ پانچ نے اختلاف کیا۔ جن آٹھ ججز نے سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ دیا ان میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔

سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے اکثریتی فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے میں اختلافی نوٹ بھی شامل کیا ہے۔

مسلم لیگ ن کی فیصلے کے خلاف اپیل

مسلم لیگ ن اور حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں تحریک انصاف کو دینے کے فیصلے کے خلاف  نظر ثانی درخواست میں سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنےکی استدعا کی۔ 

درخواست میں کہا گیا ہے کہ “مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت تسلیم کیا ہے جبکہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست میں ایسی کوئی استدعا ہی نہیں کی گئی تھی، الیکشن کمیشن آف پاکستان، پشاور ہائی کورٹ اور بعد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے جو درخواست تھی اس میں صرف یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ آیا سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار ہے کہ نہیں۔”

درخواست کے مطابق “سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی دو الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں، جبکہ سپریم کورٹ کے حکمنامہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دونوں جماعتوں کو ایک ہی تصور کیا، سپریم کورٹ نے کافی نکات کو سنا لیکن مختصر فیصلے میں کئی اہم نکات پر خاموشی ہے۔” 

درخواست میں استدعا کی گئی کہ مذکورہ درخواست کو جلد از جلد سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست