پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو پہلے تو خیبر پختونخوا میں اکثریت کے باوجود سینیٹ الیکشن نہ کرانے پر نشستیں نہیں مل سکیں اور اب الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری سیاسی جماعتوں کی فہرست میں پارٹی سربراہ کا نام بھی درج نہ ہوسکا۔
پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ کے حکم پر مخصوص نشستیں ابھی تک حاصل نہ ہوسکیں۔
ان حالات میں تحریک انصاف کا ابھی تک انتخابی نشان بلا بھی بحال نہیں ہوا اور ایوانوں میں بھی پارٹی پوزیشن بحال نہیں ہوسکی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے جو کام پارٹی سطح پر خود کرنے تھے وہ کیوں نہ ہو سکے؟
مبصرین کے خیال میں آئینی طور پر اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کے لیے بھی کوئی ٹھوس حکمت عملی سامنے نہیں آسکی۔
شاید اسی لیے پی ٹی آئی سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے بدھ کو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس میں بانی چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر قانونی معاملات کی سربراہی حامد خان کو ہٹا کر سلمان اکرم راجہ کے سپرد کر دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ جاری نہیں کیا۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت اور الیکشن کمیشن نے نظر ثانی اپیلیں بھی دائر کر رکھی ہیں۔
جبکہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے۔
اس حوالے سے پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ ’ہماری لیگل ٹیم پارٹی کے تمام قانونی معاملات دیکھ رہی ہے۔ قانونی ٹیم کے نئے سربراہ کے ساتھ مل کر جلد ہی پارٹی کو آئینی طور پر بطور سیاسی جماعت فعال کرنے کی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔‘
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد حسین شاہ کے بقول، ’الیکشن کمیشن میں ابھی تک تحریک انصاف اپنے پارٹی آئین کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن کرا کے رپورٹ جمع نہیں کرا سکی۔ عدالتوں سے ریلیف ملنے کے باوجود وہ مخصوص نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ سے الیکشن ترامیمی ایکٹ پاس ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے لیے مزید مشکلات کھڑی ہوچکی ہیں۔‘
پی ٹی آئی پارٹی پوزیشن بحال کرانے میں ناکام کیوں؟
قانون دان امجد حسین شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہر سیاسی جماعت کا اپنا آئین ہے جس کے مطابق انہوں نے الیکشن کمیشن کی شرط پر مخصوص مدت کے اندر انٹرا پارٹی الیکشن کرا کے عہدیداروں کی فہرست جمع کرانی ہوتی ہے۔ باقی جماعتوں کے آئین میں ایگزیکٹو کونسل کے ذریعے انتخاب جبکہ پی ٹی آئی کا آئین جنرل کونسل کے زریعے عہدیداروں کے چناؤ کا پابند کرتا ہے۔‘
’مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام یا جماعت اسلامی ایگزیکٹو کونسل کے تین سو اراکین کو جمع کر کے آسانی سے پارٹی الیکشن کرا لیتے ہیں۔ جبکہ تحریک انصاف دعویٰ کرتی ہے ان کے رجسٹرڈ اراکین کی تعداد کئی لاکھ ہے۔ تو انہیں اپنے آئین کے مطابق پارٹی الیکشن جنرل کونسل کے ذریعے کرانا دشوار ہوتے ہیں۔‘
امجد شاہ نے کہا کہ ’تحریک انصاف کے لیے اپنے آئین میں رہتے ہوئے انٹرا پارٹی الیکشن کرا کے الیکشن کمیشن میں اپنی حیثیت مکمل بحال کرانے میں موجودہ عہدیدار بھی سنجیدہ نہیں۔ انہوں نے تین بار پارٹی الیکشن کرائے لیکن دوسری جماعتوں کے آئین کے مطابق کرائے جو الیکشن کمیشن تسلیم نہیں کرسکتا۔ اپنے پارٹی آئین کے مطابق ایک ہی بار کرائے تھے جس میں وجیہ الدین نے دھاندلی کی تحقیقات کی تھیں۔‘
قانون دان امجد حسین شاہ نے مزید بتایا کہ’اس کے علاوہ کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت نے خود سینیٹ انتخاب نہیں ہونے دیے۔ وہاں ان کی اکثریت ہونے کے باوجود سینیٹ کی نشستیں ابھی تک نہیں مل سکیں۔ مخصوص نشستوں کے لیے کامیاب ہونے والے اپنے آزاد اراکین کو سنی اتحاد کونسل میں شامل کر دیا۔ اب سپریم کورٹ نے انہیں دوبارہ تحریک انصاف میں شامل کرنے کا جو فیصلہ دیا اسے روکنے کے لیے پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترامیم پاس کر لیں۔‘
شعیب شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے انٹرا پارٹی الیکشن کرائے لیکن الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کیے اور فہرست میں ہمارے نو منتخب پارٹی سربراہ یا دیگر عہدیداروں کے نام شمل نہیں کیے۔ سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی پھر بھی مخصوص نشستیں ہمیں نہیں دی جا رہیں۔‘
سیاسی جماعتوں کی نئی فہرست
الیکشن کمیشن آف پاکستان بدھ کو رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی نئی تازہ فہرست جاری کی جس کے مطابق الیکشن کمیشن میں 166 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔
مسلم لیگ ن کے انٹرا پارٹی انتخابات تسلیم کر لیے گئے، میاں محمد نواز شریف مسلم لیگ ن کے صدر ہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن نے جماعت اسلامی کے انٹرا پارٹی الیکشن تسلیم کر لیے اور پارٹی سربراہ حافظ نعیم الرحمٰن کا نام شامل کر لیا۔
الیکشن کمیشن نے محمود خان کا نام بطور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین اپ ڈیٹ کر دیا۔ صدر مملکت آصف علی زرداری کا نام بطور صدر پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین موجود ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری کا نام بطور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی شامل ہے۔
اس کے علاوہ اسفندیار ولی خان کا نام تاحال بطور صدر عوامی نیشنل پارٹی موجود ہے اور پاک سر زمین پارٹی بھی رجسٹرڈ جماعتوں کی فہرست میں شامل ہے۔
پی ٹی آئی کی قانونی حکمت عملی
شعیب شاہین کے بقول، ’ہماری قانونی ٹیم حکمت عملی تیار کر رہی جس میں الیکشن کمیشن کے پی ٹی آئی سے متعلق جانبدار رویے کے سد باب کیا جائے گا۔ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے لیے بھی مشاورت جاری ہے تاکہ قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد ہم اپنا انتحابی نشان بحال کرا سکیں۔ پشاورمیں پارٹی الیکشن کرا کے ہم نے رپورٹ جمع کرائی لیکن ہمارے سربراہ کا نام شامل نہیں کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے قبل سپریم کورٹ کے حکم پر ہمارے اراکین نے بیان حلفی بھی جمع کرا دیے پھر بھی ہمیں مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی گئیں۔ ہم الیکشن کمیشن کے ان غیر آئینی اور جانبدارانہ رویے کے خلاف بھی سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر غور کر رہے ہیں۔‘
امجد حسین شاہ کے مطابق ’پی ٹی آئی رہنما قانونی اعتراضات دور کر کے ہی اپنی پارٹی کے اندر اور باہر قانونی پوزیشن بحال کر سکتے ہیں۔ انہیں اپنا پارٹی آئین تبدیل کرنا ہوگا یا اسی آئین کے مطابق الیکشن کرانا ہوں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ نہ ان کا نشان بحال ہوسکتا ہے اور نہ ہی پارٹی سربراہ کا نام شامل ہوگا۔ جہاں تک بات ہے مخصوص نشستوں کی تو اس میں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ نہ آنے اور اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں کی وجہ بتا کر الیکشن کمیشن وضاحت پیش کرسکتا ہے۔‘
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کا جلسہ منسوخ
پی ٹی آئی نے اپنے اسیر بانی عمران خان کی ہدایت پر آج اسلام آباد میں ان کی رہائی کے لیے جلسہ کرنے کا اعلان کیا تھا، تاہم انتظامیہ کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر پارٹی کی جانب سے نئے بیان میں کہا گیا کہ یہ جلسہ اب ستمبر میں ہو گا۔
اس سے قبل جلسے کے این او سی کے بارے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا تھا کہ یہ ’خود عدالت نے جاری کیا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم گذشتہ روز اسلام آباد کی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے جلسے کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا تھا اور وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ ’کسی کو ریڈ زون میں آنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بیان اپنی زیر صدارت بدھ کو رات گئے امن و امان سے متعلق ایک اعلی سطح کے اجلاس کے دوران کہی۔
جس کے بعد وفاقی دارالحکومت میں تحریک انصاف نے ترنول میں جلسے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم دوسری جانب بعض مذہبی جماعتوں نے ڈی چوک اور سپریم کورٹ کے سامنے مظاہرے کی کال دے رکھی تھی۔ لیکن سماعت کے دوران ان کے کارکن زیادہ نہیں آئے۔
ادھر تازہ اعلان میں تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عمر ایوب نے ترنول کا جلسہ منسوخ کرنے کا کہا ہے البتہ مظاہرے کی نئی تاریخ کا اعلان بعد میں کرنے کا کہا تھا۔
دوسری جانب فیڈرل کیپیٹل انٹیلی جنس کوارڈینیشن کمیٹی کے اجلاس کو بتایا گیا کہ جمعرات کو ہی پاکستان اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان پہلے ٹیسٹ میچ کا دوسرا روز کا کھیل بھی ہوگا جس کے لیے کھلاڑیوں کو سکیورٹی فراہم کرنی ہوگی۔
اس حوالے سے اجلاس میں آئی جی اسلام آباد کا خیال تھا کہ ریلی میں شرکت کے لیے آنے والے کارکنان طویل عرصے تک قیام کر سکتے ہیں اور اپنے ساتھ آنسو گیس سے بچاؤ کے ماسک، خوراک، بستر اور دیگر سامان لے کر آ رہے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ریلی کو دھرنے کی شکل دے سکتے ہیں۔
عمر ایوب کے تازہ اعلان سے قبل ایک ویڈیو بیان میں وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ بڑی تعداد میں ’شام تین بجے صوابی انٹرچیج پر پہنچیں جہاں سے وہ خود ریلی کی قیادت کرتے ہوئے ترنول پہنچیں گے جہاں جلسہ ہوگا۔‘
انہوں نے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے پی ٹی آئی کی ریلی کا اجازت نامہ منسوخ کرنے کی مذمت کی۔
اسلام پولیس کے اقدامات
اسلام آباد پولیس کے مطابق جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان چلنے والی میٹرو بس سروس جمعرات کو معطل رہے گی۔
ریڈ زون میں سرینا چوک، نادرا چوک اور ایکسپریس چوک پر آنے اور جانے والے تمام راستے بند ہیں جن کے متبادل کے طور پر مارگلہ روڈ استعمال کی جا سکتی ہے۔
فیض آباد کے مقام پر مری روڈ کا صرف ایک لین ٹریفک کے لیے کھلا ہے۔ سواں کا پل ٹریفک کے لیے دونوں جانب سے بند ہے۔
لاہور سے اسلام آباد آنے والی ایم ٹو موٹر وے کے تقریباً تمام انٹرچینج کنٹینر لگا کر بند کردیے گئے ہیں۔
اسلام آباد شہر کے اندر کی تمام سڑکیں ٹریفک کے لیے کھلی ہیں، سری نگر ہائی وے، کرنل شیر خان روڈ، مارگلہ روڈ، جناح ایونیو، نائنتھ ایونیو اور سیونتھ ایونیو وغیرہ۔
صوبہ پنجاب نے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے جس کی رو سے شہریوں کا اجتماع ممنوع ہے۔