’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کا تمام سیاسی جماعتوں میں گرینڈ مذاکرات پر زور

مشترکہ اپوزیشن ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ نے آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر ایک اعلامیے میں کہا کہ ’ہائبرڈ نظام پاکستان سے اپوزیشن کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے اور ان چیلنجز سے نکالنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان کی مشترکہ اپوزیشن ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ نے جمعے کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں بڑے پیمانے پر مذاکرات پر زور دیا ہے۔

اسلام آباد میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے زیرِ اہتمام آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے دوسرے اور آخری روز جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ہائبرڈ نظام پاکستان سے اپوزیشن کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے اور ان چیلنجز سے نکالنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

’اس ضمن میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان گرینڈ مذاکرات ہونے چاہییں۔‘

سینیئر سیاست دان اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی کی میزبانی میں ہوئی اے پی سی میں محمد زبیر، اسد قیصر اور شاہد خاقان عباسی سمیت کئی رہنماؤں نے شرکت کی، جنہوں نے موجودہ سیاسی، عدالتی اور معاشی حالات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

آل پارٹیز کانفرنس کے 32 نکاتی مشترکہ اعلامیے میں ملک کی آئینی، سیاسی و معاشی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اعلامیے میں ’یکطرفہ عدالتی فیصلوں کو اپوزیشن کے خاتمے کی سازش قرار دیا گیا اور سیاسی جماعتوں کے مابین نئے میثاق جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا گیا۔‘

کانفرنس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں نے 1973 کے آئین، پارلیمان کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر اتفاق کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی اور منصفانہ الیکشن کے طریقہ کار پر تجاویز پیش کیں۔

اجلاس میں ’اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خط کو عوامی ہیروز کی آواز قرار دیا گیا اور ان کے مؤقف کی مکمل حمایت‘ کی گئی۔

سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اپوزیشن کا مطلب صرف تنقید نہیں، اچھی پیش رفت کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔‘

انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ٹریڈ ٹیرف میں حالیہ بہتری کو سراہا، مگر ساتھ ہی آئینی خلاف ورزیوں، عدالتی فیصلوں اور سیاسی انتقام پر شدید نکتہ چینی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے، انتخابی نشان واپس لینے اور اسمبلیوں کے بروقت انتخابات نہ کرانے جیسے اقدامات آئین سے انحراف ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اسمبلیاں تحلیل کرنا آئینی حق تھا، لیکن 90 دن میں انتخابات نہ کرانا آئینی جرم ہے۔‘

انہوں نے زور دیا کہ ’آزاد عدلیہ، شفاف انتخابات اور عوامی مینڈیٹ کا احترام ہی سیاسی استحکام کی ضمانت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے عدلیہ کے کردار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ’پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کا موجودہ کردار انتہائی قابلِ افسوس ہے۔‘

انہوں نے کہا ’ہم چیف جسٹس سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ انصاف یقینی بنائیں، ورنہ لوگ عالمی عدالتوں کا رخ کریں گے۔‘

اسد قیصر نے سکیورٹی آپریشنز، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور سابقہ فاٹا میں مجوزہ اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کسی بھی آپریشن کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان علاقوں کو تجارت اور ترقی کے ذریعے مضبوط بنایا جائے۔‘

انہوں نے الزام لگایا کہ ’کے پی کے میں صرف سیاسی انتقام کی بنیاد پر بدامنی پھیلائی جا رہی ہے‘ اور مطالبہ کیا کہ ’معدنیات کے وسائل پر پہلا حق مقامی آبادی کا ہونا چاہیے۔‘

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ’پاکستان کے تمام مسائل کا حل صرف قانون کی حکمرانی ہے۔ جس ریاست میں شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کر لیے جائیں وہاں نہ امن ہو سکتا ہے اور نہ ہی ترقی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’آج ملک میں کوئی قانون، کوئی عدالت اور کوئی انصاف موجود نہیں۔ جب تک آئین کی بالادستی قائم نہیں ہوگی، پاکستان سیاسی یا معاشی استحکام حاصل نہیں کر سکتا۔‘

محمد زبیر نے کانفرنس کے اختتام پر کہا ’پاکستان کی بقا آئین کی سربلندی، عدلیہ کی آزادی اور عوامی رائے کے احترام میں ہے، اور یہی پیغام آج ہم سب متحد ہو کر دے رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست