اے پی سی: عمران خان سے استعفے کا مطالبہ، احتجاجی مظاہروں کا اعلان

دارالحکومت اسلام آباد میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر ملک میں احتجاجی مظاہروں، ریلیوں کا اعلان اور وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

(اے ایف پی)

دارالحکومت اسلام آباد میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر ملک میں احتجاجی مظاہروں، ریلیوں کا اعلان اور وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اتوار کو بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے اختتام پر 26 نکاتی ایجنڈے اور ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا جس میں آئندہ مہینوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی شامل ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بنائے جانے والے اس ایکشن پلان کے بارے میں بتاتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ’آل پارٹیز کانفرنس میں عمران خان سے مستعفی ہونے کے مطالبے پر اتفاق کیا گیا ہے۔‘

مولانا فضل الرحمان نے بتایا کہ ’اکتوبر میں اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے ریلیاں نکالی جائیں گے جبکہ دسمبر میں بڑے احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ان ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کے بعد آئندہ سال جنوری میں لانگ مارچ کیا جائے گا۔‘

مولانا فضل الرحمان کے مطابق اے پی سی میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ متحدہ حزب اختلاف تمام جمہوری، آئینی اور سیاسی آپشن استعمال کرے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ اس ایکشن پلان میں استعفوں کا آپشن بھی شامل ہے جس کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔‘

اس سے قبل مولانا فضل الرحمان نے 26 نکاتی قرار داد کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک اتحادی ڈھانچہ بھی تشکیل دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اسٹیبلیشمنٹ کے موجودہ حکومت کو استحکام فراہم کرنے پر تشویش اور سیاست میں عمل دخل کو قومی سلامتی کے اداروں کے لیے خطرناک قرار دیا گیا اور اسے روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔‘

ان کے مطابق تمام جماعتوں کی جانب سے ’شفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے انتخابی اصلاحات اور اس عمل سے فوج اور ایجنسیز کو دور رہنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔‘

مولانا فضل الرحمان کی جانب سے ان اعلانات کے بعد بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف نے بھی بات کی اور کہا کہ وہ ان تمام نکات اور ایکشن پلان کی تائید کرتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے آغاز میں سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی خطاب کیا تھا۔

کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، قومی وطن پارٹی (کیو ڈبلیو پی)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی-ایم)، جمعیت اہلحدیث اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما شریک تھے۔

نواز شریف کا خطاب

نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہماری جد و جہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے اور ان کے خلاف ہے جنہوں نے اس نااہل بندے کو یہاں بیٹھایا ہے۔‘

’ہمارا مقابلہ ان کے خلاف ہے جو الیکشن چوری کر کے ان ناہلوں کو حکومت میں لائے۔ اب تبدیلی ضروری ہو گئی ہے۔‘

اے پی سی کے حوالے سے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’اس کانفرنس میں جو بھی حکمت عملی بنائی جائے گی مسلم لیگ ن اس کا بھرپور ساتھ دے گی۔‘

نواز شریف نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب کے آغاز میں سب سے پہلے آصف زرداری سمیت تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کے دو لخت ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے بنائے گئے حمودالرحمن کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا وقت بھی آگیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں وطن سے دور ہوتے ہوئے بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ وطن عزیز کن حالات سے گزر رہا ہے اور عوام کن مشکلات کا شکار ہیں۔‘

 ’اس کانفرنس کا انعقاد بہت اہم موقع پر کیا گیا ہے، کیونکہ پاکستان کی خوشحالی اور صحیح جمہوری ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر طرح کی مصلحت چھوڑ کر اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں اور بے باک فیصلے کریں۔‘

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کو تجربات کی لیبارٹری بنا کر رکھ دیا ہے، کبھی کوئی نمائندہ حکومت بن بھی جائے تو اسے ہر طرح کی سازش کے ذریعے سے پہلے بےاثر اور پھر فارغ کر دیا جاتا ہے۔‘

’پروا بھی نہیں کی جاتی کہ اس سے ریاستی ڈھانچہ کمزور ہوگا، اقوام عالم میں جگ ہنسائی ہوئی اور عوام کا ریاستی اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا۔‘

تحریک انصاف حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ملک کی معیشت ’زبو حالی‘ کا شکار ہے اور عوام کو بے پناہ مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’چند سال قبل بلوچستان حکومت کو گرایا گیا اور اس میں اس وقت کے کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا نام بھی لیا جاتا ہے۔‘

’عاصم باجوہ کی دولت کی تفصیلات حال ہی میں سامنے آئی ہیں، جنہیں چھپانے کے لیے ایس ای سی پی نے اپنے ریکارڈز میں تبدیلیاں کیں۔ نہ نیب نے نوٹس لیا، نہ کوئی جے آئی ٹی بنی اور نہ کسی عدالت میں کارروائی ہوئی۔‘

میاں نواز شریف نے چین پاکستان اقتصادی راہدار کے حوالے سے بھی طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’سی پیک کے ساتھ بھی بی آر ٹی جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ کبھی بسوں میں آگ لگ جاتی ہے تو کبھی بارشیں سب پول کھول دیتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم معیشت کے علاوہ پاکستان کی مسلح افواج کو بھی مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں، ہم نے ماضی میں یہ ثابت کیا ہے اور مستقبل میں بھی کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں بچے بچے کی زبان پر ہے کہ 73 سال کی تاریخ میں ایک بار بھی کسی منتخب وزیراعظم کو اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔‘

نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’اکتوبر 2016 میں قومی سلامتی کے امور پر بحث کے دوران توجہ دلائی گئی کہ دوستوں سمیت دنیا کو ہم سے شکایت ہے ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہیں کہ دنیا ہم پر انگلی نہ اٹھائے تو اسے ڈان لیکس کا نام دیا اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جے آئی ٹی بنی اور مجھے غدار اور ملک دشمن بنا دیا گیا۔‘

نواز شریف کے اپوزیشن کی جماعتوں سے خطاب سے قبل سابق صدر آصف علی زرداری نے اے پی سی سے ابتدائی خطاب کیا تھا۔

آصف زرداری کا خطاب

آصف زرداری نے کہا کہ ’اس تقریب کے بعد پہلا بندہ میں ہی جیل میں ہوں گا۔ مولانا صاحب آپ ضرور ملنے آیے گا۔‘

’یہ لوگ اوپر سے آ کر ہم پر قابض ہو گئے ہیں۔ ہم انھیں حکومت سے نکال کر جمہوریت بحال کر کے رہیں گے۔ ہم نے ان سے پاکستان کو بچانا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’میری نظر میں یہ کانفرنس بہت پہلے ہونی چاہیے تھی، مولانا نے اگر مجھے جیلوں میں نہ بھیجا ہوتا تو شاید میں پہلے آجاتا، مولانا کا کام ہی یہی ہے کہ کسی کو آسرا دے کر کہنا کہ چل میں آرہا۔‘

آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’اے پی سی کے خلاف حکومت جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے وہی آپ کی کامیابی ہے، یہ کیا ہے کہ نواز شریف کو براہ راست نہیں دکھا سکتے لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کو دکھا سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’جب سے ہم سیاست میں ہیں ہم نے کبھی اتنی پابندیاں نہیں دیکھیں، ایک چینل کے سی ای او کو جیل میں ڈالا ہوا جبکہ ایک چینل کو لاہور سے بند کیا ہوا ہے، یہ سب حکومت کی کمزوریاں ہیں، آج کل کی میڈیا کو بند کرنا یا رکھنا تقریباً نامکمل ہے کیونکہ آج کل ہر کوئی انٹرنیٹ کا استعمال کرتا ہے۔‘

سابق صدر نے کہا کہ ’جمہوریت پر یقین رکھنے والے سب ناکام ہیں، ہمیں پیمرا کی ضرورت نہیں ہے، لوگوں کو پتہ ہے کہ وہ ہمیں سن رہے ہیں اور سنتے رہیں گے۔‘

آصف زرداری نے اپنے خطاب کے دوران مریم نواز شریف کو قوم کی بیٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں (مریم نواز) نے کتنی تکلیف سہی ہوگی کیونکہ میری بہن اور بیوی نے بھی یہ سب کچھ دیکھا تھا۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے مقصد کے لیے لڑتے رہیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست