عام شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات سننے سے متعلق آرمی ایکٹ کی شقوں کو بحال کرتے ہوئے ان ٹرائلز کو درست قرار دے دیا ہے۔

20 اکتوبر 2022 کی تصویر میں سپریم کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)
 

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بدھ کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق آرمی ایکٹ کی شقوں کو بحال کرتے ہوئے عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جانے کو درست قرار دے دیا اور وزارت دفاع سمیت دیگر اپیلوں کو منظور کر لیا۔ 

سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ڈی ون اور شق 59(4) کو بھی بحال کر دیا۔

آئینی بینچ نے پانچ ججوں کی اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ دیا۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس حسن رضوی اکثریتی فیصلہ دینے والے ججوں میں شامل تھے جبکہ جسٹس جمال مندو خیل اور نعیم افغان نے اختلاف کیا۔ 

عدالت نے 23 اکتوبر 2023 کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جس میں قرار دیا گیا تھا کہ سویلینز کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا اور تمام کیسوں کو سول عدالتوں منتقل کرنے کا کہا گیا تھا۔

اپیل کا حق

فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لیے اب یہ معاملہ حکومت کو بھجوا دیا گیا ہے۔

اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ’حکومت 45 دن میں اپیل کا حق دینے کے حوالے سے قانون سازی کرے اور ہائی کورٹ میں اپیل کا حق دینے کے لیے آرمی ایکٹ میں ترامیم کی جائیں۔

فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل سے متفرق اپیلوں پر فیصلہ پانچ مئی کو محفوظ ہوا تھا۔

گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا تھا کہ اگر عدالت کالعدم دفعات بحال کرکے آبزرویشنز دے تو پارلیمنٹ اس معاملے کو دیکھ لے گی۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کے لیے کہنے کی مثال میں ایک عدالتی فیصلہ موجود ہے۔‘

اٹارنی جنرل نے یہ بھی بتایا کہ ’نو مئی واقعات میں فوج نے فوجی افسران کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔ بغیر پینشن ریٹائر ہونے والوں میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، ایک بریگیڈیئر، لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں، 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی۔‘

گذشتہ برس دسمبر میں 26ویں آئینی ترمیم کے تحت بننے والے آئینی بینچ نے اس مقدمے کو روزانہ کی بنیاد پر سننا شروع کیا تھا جس میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مفصل دلائل دیے جبکہ ملزمان اور دیگر درخواست گزاروں کے وکلا نے بھی دلائل دیے۔

جواب الجواب عید الفطر کے بعد شروع ہوئے جو مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ مخفوظ کیا۔

آئینی عدالت کے سات رکنی بینچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس محمد مظہر علی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔

دوران سماعت آئینی بینچ کے مختلف سوالات

فوجی عدالتوں میں متفرق اپیلوں کی سماعت کے دوران آئینی بینچ نے کئی آئینی و قانونی سوالات اٹھائے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’ہم نے مرکزی فیصلے پر نظرثانی بھی کرنی ہے، یکسانیت بھی لانی ہے، تشریح بھی کرنی ہے۔‘

آئینی بینچ نے چالان جمع ہونے سے لے کر سزا تک کے عمل کی تفصیلات بھی فوجی عدالت سے طلب کی تھیں۔

آئینی بینچ کے سوالات: 

· نو مئی کے تمام ملزمان کی ایف آئی آر تو ایک جیسی تھی، یہ تفریق کیسے ہوئی؟ کچھ کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا، کچھ کا انسداد دہشت گردی کی عدالت میں؟‘

· ملٹری کسٹڈی لینے کا عمل کون شروع کرتا ہے؟ دیکھنا یہ ہے کہ کن سویلینز کا کن حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟‘

· آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی ون کالعدم ہی رہی تو سویلینز کیا، کسی ریٹائرڈ افسر کا بھی ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکے گا؟

· اگر ہم کسی اور نتیجے پر پہنچیں تو طے کرنا ہو گا کہ کون سے سویلین کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے۔‘

· نو مئی کا آخر کوئی ماسٹر مائنڈ بھی ہو گا، سازش کس نے کی، لوگوں کا کورکمانڈر ہاؤس کے اندر جانا تو سکیورٹی کی ناکامی ہے۔‘

· آرمی میں سول ملازمین بھی ہوتے ہیں، اگر سول ملازم، ملازمت کی آڑ میں دشمن ملک کے لیے جاسوسی کرے تو ٹرائل کہاں ہو گا؟

وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے ججوں کے سوالوں کے جواب میں کہا کہ ’سازش کرنے والے یا ماسٹر مائنڈ کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہی ہو گا۔‘

ابتدائی فیصلے میں مشروط اجازت

ان اپیلوں کی ابتدائی سماعتوں میں گذشتہ برس 13 دسمبر کو آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے ٹرائل پر مشروط فیصلہ سنانے کی اجازت دی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے، وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا، انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔

اس سے قبل جسٹس ریٹائرڈ سردار طارق مسعود کی سربراہی میں بینچ نے 12 دسمبر 2023 کو سپریم کورٹ کے گذشتہ فیصلے کو معطل کرتے ہوئے نو مئی کے سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی اس شرط پر اجازت دی تھی کہ ان مقدمات کے حتمی فیصلے جاری نہیں کیے جائیں گے۔

103 میں سے 20 ملزمان کو سزاؤں کی مدت پوری ہونے پر اپریل 2024 میں عید پر رہا کر دیا گیا تھا۔

نو مئی ملزمان کو فوجی عدالتوں سے سزائیں

آئینی بینچ کے ابتدائی مشروط فیصلے کے بعد گذشتہ برس 21 دسمبر کو 9 مئی میں ملوث 85 مجرموں کو فوجی عدالتوں سے 10 سال قید بامشقت تک کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ 

آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے نو مئی میں ملوث 25 مجرمان کو 10 سال تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ 26 دسمبر 2024 کو آئی ایس پی آر نے مزید 60 ملزمان کی سزاؤں کا فیصلہ جاری کیا تھا، جس کے تحت نو مئی میں ملوث عمران خان کے بھانجے حسان نیازی سمیت مزید 60 ملزمان کو 10 سال تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئیں اور ملزمان کو مرحلہ وار سویلین جیل منتقل کیا گیا تھا۔

رواں برس دو جنوری کو پاکستانی فوج کے کورٹس آف اپیل نے 9 مئی 2023 کے 19 مجرمان کی سزاؤں میں معافی کا اعلان کیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق: ’کورٹس آف اپیل نے نو مئی 2023 کے 19 مجرمان کی سزاؤں میں معافی کا اعلان کر دیا ہے، سزاؤں پر عمل درآمد کے دوران 67 مجرمان نے قانونی حق استعمال کرتے ہوئے رحم اور معافی کی پٹیشنز دائر کیں۔‘

مزید کہا گیا کہ ’48 پٹیشنز کو قانونی کارروائی کے لیے ’کورٹس آف اپیل’ میں نظرثانی کے لیے ارسال کیا گیا، 19 مجرمان کی پٹیشنز کو خالصتاً انسانی بنیادوں پر قانون کے مطابق منظور کیا گیا۔‘

فوجی عدالت میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق مرکزی فیصلہ کیا تھا؟

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کے خلاف درخوستوں پر 23 اکتوبر 2023 کو فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو کالعدم قرار دیا تھا۔

عدالت نے حکم دیا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو گا بلکہ فوجداری عدالتوں میں ٹرائل ہو گا۔

عدالت نے مزید کہا کہ ’سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے آرمی ایکٹ کی دفعات کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی۔

’سویلین کو فوجی عدالتوں کے حوالے کرنے کی جو شق ہے، اس پر فیصلہ چار ایک کی نسبت سے ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے الگ نوٹ بھی جاری کیا، جبکہ سویلین کا سول عدالتوں میں ٹرائل اور فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیر آئینی قرار دینے کے معاملے پر پانچ ججوں کا متفقہ فیصلہ ہے۔‘

اس مقدمے کا سیاق و سباق

سال 2023 میں ملک بھر میں نو مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد گرفتاریاں کی گئیں اور قومی سلامتی کمیٹی میں فوجی تنصیبات پر حملہ آوروں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔

بعدازاں جون 2023 میں عمران خان، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں پر مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔

درخواستوں میں استدعا کی گئی تھی کہ ’عام عدالتیں ہوتے ہوئے ملٹری عدالتوں کے ذریعے عام شہریوں کا ٹرائل غیر آئینی قرار دیا جائے اور آرمی ایکٹ کے مختلف سیکشنز آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہیں، جنہیں کالعدم قرار دیا جائے۔‘

اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ 

اس کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے سننے سے معذرت کی تھی کہ جب تک عدالتی اصلاحات کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، اس بینچ میں نہیں بیٹھیں گے۔

اس کے بعد وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض کیا تھا تو انہوں نے بھی کیس سے معذرت کر لی تھی اور اپنے نوٹ میں لکھا تھا کہ اس معاملے پر فل کورٹ بننی چاہیے۔

اس کے بعد جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ نے یہ کیس سنا اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان