انڈیا کے کئی مقامی حکام نے یوم آزادی کے موقعے پر گوشت کی فروخت پر پابندی کا حکم جاری کیا ہے، جس پر اپوزیشن جماعتوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔
مغربی ریاست مہاراشٹر کی کم از کم چار بلدیات اور تلنگانہ کی ایک بلدیہ نے حکم دیا ہے کہ جمعے کو تمام مذبح خانے اور گوشت کی دکانیں 24 گھنٹوں کے لیے بند رہیں۔ انڈیا 15 اگست کو برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی کے 78 سال مکمل ہونے کا جشن منائے گا۔
ہندو تہواروں کے دوران گوشت پر پابندی مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت میں شمالی ریاستوں میں معمول کی بات بن چکی ہے، تاہم یہ متنازع پابندیاں زیادہ تر مذہبی تہواروں تک محدود ہوتی ہیں۔
2022 میں شائع ہونے والے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا کی 30 سے زائد ریاستوں اور یونین ٹیریٹریز میں سے نصف سے زیادہ میں 90 فیصد سے زائد آبادی گوشت اور مچھلی کھاتی ہے۔ 2014 میں رجسٹرار جنرل آف انڈیا کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ ملک کی 70 فیصد آبادی گوشت استعمال کرتی ہے۔
مہاراشٹر کے چھترپتی سمبھاجی نگر، کلیان ڈومبیولی، مالیگاؤں اور ناگپور کے بلدیاتی ادارے ان اداروں میں شامل ہیں جنہیں ایک سیکیولر قومی دن پر گوشت کی فروخت پر پابندی لگانے پر تنقید کا سامنا ہے۔ اس اقدام پر ریاست کے نائب وزیراعلیٰ نے بھی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
اجیت پوار، جن کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کا دھڑا مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ اتحادی حکومت کا حصہ ہے، نے کہا کہ ’ایسی پابندی لگانا غلط ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین ایکسپریس کے مطابق ڈپٹی چیف منسٹر کا کہنا تھا، ’بڑے شہروں میں مختلف ذاتوں اور مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ اگر یہ کوئی جذباتی معاملہ ہے تو لوگ ایک دن کے لیے اسے (پابندی) قبول کر لیتے ہیں، لیکن اگر آپ مہاراشٹر ڈے، یوم آزادی اور یوم جمہوریہ پر اس طرح کے احکامات جاری کریں گے تو یہ مشکل ہو جائے گا۔‘
اجیت پوار کا کہنا تھا کہ ’دیہی مہاراشٹر میں لوگ جشن کے دوران سبزی نہیں کھاتے۔ اگر ہم ساحلی کونکن خطے کو دیکھیں تو لوگ زیادہ تر سمندری غذا کھاتے ہیں۔ قبائلی افراد سبزی کھانے کے عادی نہیں۔ خوراک کے رجحانات اور تنوع کا احترام ہونا چاہیے۔‘
سابق ریاستی وزیر آدتیہ ٹھاکرے نے احتجاج کرتے ہوئے کہا: ’یوم آزادی پر ہم کیا کھاتے ہیں، یہ ہمارا اپنا فیصلہ ہے۔‘
انہوں نے ایکس پر لکھا: ’شہریوں پر سبزی کھانا لازم قرار دینے کی بجائے خراب سڑکیں اور ٹوٹی پھوٹی شہری سہولیات درست کرنے پر توجہ دیں۔ شہری جو چاہیں کھائیں گے، سبزی یا گوشت۔‘
حکمران بی جے پی نے اس پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خاص طور پر انڈیا کی آزادی کے جشن کے موقعے پر یہ اقدام کرنے کا اختیار 1988 کے ایک ریاستی حکومتی حکم نامے کے تحت حاصل ہے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کے ترجمان نویناتھ بان نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ اقدام کوئی نیا فیصلہ نہیں ہے۔ انہوں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، ’یوم آزادی، گاندھی جینتی (مہاتما گاندھی کی سالگرہ)، مہاویر جینتی، رام نومی وغیرہ جیسے کچھ اہم دنوں پر ذبح خانوں اور گوشت کی دکانوں کو بند رکھنے کا فیصلہ اس وقت کی حکومت نے 1988 میں کیا تھا۔ تب سے کچھ بلدیاتی ادارے اس پر عمل کرتے ہیں۔‘
مہاراشٹر اسمبلی کے رکن جتیندر اوہاڈ نے دعویٰ کیا کہ ریاستی حکومت ’سبزی خور اور گوشت خور کی تقسیم کو ہوا دے رہی ہے‘ جو کہ سماجی تنازعات کے سلسلے میں تازہ ترین معاملہ ہے۔
اوہاڈ نے یومِ آزادی پر ’مٹن پارٹی‘ رکھنے کی دھمکی دی اور کہا: ’جس دن ہم نے آزادی حاصل کی، اسی دن آپ ہماری اپنی مرضی سے کھانے کی آزادی چھین رہے ہیں۔‘
تلنگانہ میں ہائی کورٹ نے پیر کو گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن سے وضاحت طلب کی کہ اس نے یوم آزادی اور ہندو تہوار جنم اشٹمی (جو اس سال 16 اگست کو منایا جائے گا) کے موقعے پر گوشت کی دکانیں اور مذبح خانے بند رکھنے کا حکم کیوں دیا۔
قانونی خبریں فراہم کرنے والے انڈیا کے نمایاں ترین آن لائن پلیٹ فارم بار اینڈ بنچ کے مطابق، ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ۔ ’مویشیوں کے مذبح خانے اور گوشت کی دکانیں بند کرنے کا فیصلہ بغیر کسی وجہ کے کیا گیا ہے اور یہ اختیار کے بےجا استعمال کی ایک واضح مثال ہے۔‘
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے پابندی کو ’بے حس اور غیر آئینی‘ قرار دیا۔
انہوں نے سوال کیا: ’گوشت کھانے اور یوم آزادی منانے کا آپس میں کیا تعلق ہے؟‘ ان کا دعویٰ تھا کہ تلنگانہ میں 99 فیصد لوگ گوشت کھاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’یہ گوشت پر پابندیاں عوام کے آزادی، نجی زندگی، روزگار، ثقافت، خوراک اور مذہب کے حق کی خلاف ورزی ہیں۔‘