فیصل آباد: دو سال میں 20 بچوں سے گن پوائنٹ پر زیادتی کا ملزم کیسے مارا گیا؟

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعتراض کیا ہے کہ پولیس ماورائے عدالت لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔

پانچ اگست، 2024 کو لاہور میں پولیس اہلکار نظر آ رہے ہیں (اے ایف پی)

فیصل آباد کے علاقے کوٹ خان محمد میں کم سن بچوں اور بچیوں سے اسلحے کے زور پر زیادتی اور خفیہ طور پر ان کی ویڈیوز بنا کر بلیک میل کرنے والا ملزم محکمہ کرائم کنٹرول فیصل آباد ڈویژن سے مبینہ پولیس مقابلے کے دوران مارا گیا۔

سی سی ڈی حکام کے مطابق ’ملزم محسن کے خلاف سی سی ڈی نے پولیس کی مدعیت میں 11 اگست پیر کو مقدمہ درج کر کے ملزم کو گرفتار کرنے  کے لیے کوٹ خان محمد ستیانہ روڑ پر چھاپہ مارا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اگلے روز ملزم کی رہائی کے لیے ملزم کے ساتھیوں نے پولیس پر فائرنگ کر دی۔ جس سے ملزم زخمی ہو گیا اور ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گیا۔‘

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سی سی ڈی پنجاب میں مختلف جرائم میں ملوث ملزمان کے نام پر انہیں ماورائے قانون اور  ماورائے عدالت قتل کر رہی ہے۔ ہر مقدمے میں ایک ہی کہانی بنائی جا رہی ہے کہ ملزم کے ساتھیوں کی فائرنگ سے ملزم ہلاک ہو گیا، حالانکہ کئی کیسوں میں ملزموں کو ہتھکڑیاں بھی لگی ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہتھکڑیوں کے ساتھ کوئی پولیس پر حملہ کرے یا اس کے ساتھیوں کو اچانک معلوم ہوجائے پولیس ان کے ساتھی کو کہاں لے جا رہی ہے۔‘

اس حوالے سے سی سی ڈی کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ سے موقف جاننے کی متعدد بار کوشش کی گئی لیکن انہوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔

تاہم سی سی ڈی حکام نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو تحریری بریفنگ دی کہ سی سی ڈی کی کارروائیوں سے پنجاب بھر میں جرائم کی شرح واضح کم ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ صوبے میں آٹھ سو سے زائد جرائم پیشہ افراد نے جرم کا راستہ چھوڑ دیا۔

بچوں سے زیادتی کی شکایت کے بغیر اطلاع کیسے ملی؟

سی سی ڈی فیصل آباد کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگومیں بتایا کہ ’ہمیں کچھ عرصہ پہلے اطلاع ملی کہ کوٹ خان محمد میں الیکٹرک مکینک کی دکان چلانے والا محمد محسن دو سال سے قریبی علاقے سے 10 سے 12 سال کے بچے بچیوں کو گن پوائنٹ پر زیادتی کا نشانہ بناتا ہے۔ ہم نے اس بارے میں چھان بین شروع کی تو معلوم ہوا کہ وہ بچوں کو بہلا پھسلا کر ایک گھر لے جاتا ہے۔ وہاں لے جا کر جنسی زیادتی کرتا ہے اور ویڈیو بنا لیتا ہے، زیادتی کا شکار بچے بچیاں یا تو گھر نہیں بتاتے، اگر بتائیں تو گھر والے اس بارے میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی ٹی ڈی افسر کے بقول، ’سی ٹی ڈی حکام نے چھان بین مکمل ہونے کے بعد ملزم کو گرفتار کر لیا۔ ملزم سے موبائل فون برآمد کیا تو اس میں 20 سے زائد بچے بچیوں سے زیادتی کی مکمل ویڈیوز موجود تھیں۔ ملزم محسن نے پولیس کے سامنے اقرار کیا کہ وہ بچوں سے زیادتی کی ویڈیو ان کے والدین کو دکھا کر رقوم بھی وصول کرتا رہا ہے۔ بچوں سے اسلحے کے زور پر زیادتی کر کے ویڈیو بناتا اور دوسرے بچوں کو لانے پر مجبور کرتا تھا۔‘

افسر کے بقول، ’شرم اور بدنامی کے خوف سے کسی بھی متاثرہ بچے کے والدین سامنے آنے کو تیار نہیں تھے۔ لہذا سی ٹی دی نے پولیس کی مدعیت میں ہی مقدمہ درج کیا۔ اس دوران ملزم کو فرار کرانے کی کوشش میں اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔ ہم نے یہی رپورٹ تیار کی ہے۔‘

موجودہ حکومت نے کچھ ماہ پہلے کرائم کنٹرول محکمہ قائم کیا۔ سی سی ڈی کی جانب سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں جاری ہیں۔ مختلف رپورٹس کے مطابق کئی شہروں میں مبینہ مقابلوں میں دو سوسے زائد ملزمان مارے جا چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں ڈکیتی یا زیادتی کے کئی ملزمان کی کچھ ہی گھنٹے میں پولیس مقابلے میں مارے جانے کی خبر خود سی سی ڈی کی جانب سے جاری کی جا رہی ہے۔ دو دن پہلے خاتون کے کانوں سے سونے کی بالیاں ہتھیا کر فرار ہونے والا ملزم بھی کچھ گھنٹے میں مارے جانے کی وضاحت سامنے آگئی۔

اس حوالے سے جولائی میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے ایک خاتون کے بیٹے کو پولیس مقابلے میں مارے جانے کے خلاف درخواست پر انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب ڈاکٹر عثمان أنور کو طلب کیا تھا۔ آئی جی پنجاب نے عدالت کو اس بارے میں وضاحت بھی پیش کی۔ عدالت نے آئی جی پنجاب کو کرائم کنٹرول ڈپارٹمنٹ کے مقابلوں کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔ اس دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک دن میں جعلی مقابلوں کی 50 ,50 درخواستیں آ رہی ہیں۔

سی سی ڈی کارروائیوں کے اثرات

سی سی ڈی حکام کی جانب سے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کو تحریری رپورٹ پیش کی جس کے مطابق رواں سال مارچ سے جولائی تک جرائم کی شرح میں ریکارڈ کمی کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق صوبے میں مارچ کے ماہ میں پانچ ہزار71 چوری ڈکیتی کی وارداتیں رپورٹ ہوئیں جو جولائی میں کم ہوکر 26 سو رہ گئیں۔ ان وارداتوں میں مجموعی طور پر 49 فیصد کمی کا بتایا گیا۔ موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں میں 32 فیصد، اغوا برائے تاوان کے واقعات میں 78فیصد اسی طرح قتل کے کیسوں میں 25 فیصد کمی کا بتایا گیا ہے۔

ایچ آر سی پی کے سربراہ کے بقول، ’جرائم پر قابو پانے کے لیے ملک میں آئین و قانون اور ادارے موجود ہیں۔ پولیس کا پورا محکمہ اور ایجنسیاں مجرموں کو پکڑنے کا کام کر رہی ہیں۔ عدالتیں موجود ہیں جو ایک نظام کے تحت سزا و جزا کا فیصلہ کرتی ہیں۔ جس پر جرم ثابت ہو جائے اس کو سزائیں قانون کے مطابق دی جاتی ہیں۔ لیکن سی سی ڈی کے نام سے بنائے گئے محکمے کو ماورائے عدالت قتل عام کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔‘

بقول اسد اقبال ’اگر تمام قانونی پہلو نظر انداز کر کے کھلے عام ملزموں کو مارنے کا اختیار دے دیا گیا ہے تو عدالتوں اور باقی پولیس کے اخراجات لوگ کیوں برداشت کر رہے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ 78 سالوں میں ہم عوام کے پیسے سے ایسا نظام نہیں بنا سکے جس میں لوگوں کو پورا انصاف مل سکے اور شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ یہ غیر قانونی اور عارضی حربے معاشرے میں بے چینی کا سبب بنتے ہیں ہر ایک اسلحہ اٹھا کر مارنے مرانے کی طرف راغب ہوتا ہے۔‘

’ہم نئی نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس؟ ملک میں کوئی قانون یا عدالتیں اس قابل نہیں جو انصاف فراہم کر سکیں؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان