قومی اسمبلی اجلاس میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی منظوری کے بعد مشکوک شخص کو مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز تین ماہ کے لیے حفاظتی حراست میں رکھنے کی مجاز ہوں گی۔
بدھ کو اجلاس میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کیا گیا۔ بل کی حمایت میں 125 ووٹ آئے جب کہ مخالفت میں 45 ووٹ آئے۔
اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی تھی لیکن حکومتی نمبر اسمبلی میں زیادہ ہونے کی وجہ بل منظور ہوا۔
اپوزیشن نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2024 کی مخالفت کرتے ہوئےگنتی کو چیلنج کیا تو اس پرگنتی شروع کرائی گئی، گنتی میں حکومتی ارکان کی تعداد بل کی حمایت میں زیادہ نکلی۔
قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ترمیم کا مقصد دہشت گردی کی روک تھام اور سکیورٹی کو مضبوط بنانا ہے۔ 2012 والے حالات دوبارہ اس ملک میں ہیں، ایک ماہ میں فوج کے چار میجر شہید ہوئے ہیں، یہ قانون بنانا اب ضروری ہے، ہمیں فورسز کی مدد کرنی ہے۔ ترمیم سے قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر کارروائی کر سکیں گے۔ خطرناک عناصر کی بروقت گرفتاری سے دہشت گردی کی سازشوں کو روکا جا سکے گا۔‘
بل کی منظوری کے بعد مشکوک فرد کو فورسز حراست میں لینے کی مجاز ہوں گی ’لیکن ٹھوس شواہد کے بغیر کسی بھی شخص کو حراست میں نہیں لیا جا سکے گا۔‘
بل کا متن
بل کی تفصیل کے مطابق اب مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں کے ذریعے جامع تحقیقات ممکن ہو سکے گی۔ مسلح افواج اور سویلین اداروں کو مشتبہ افراد کی حراست کا قانونی اختیار دیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بل کے متن کے مطابق جرائم کے مرتکب یا مشکوک کسی بھی شخص کو مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز تین ماہ کے لیے حفاظتی حراست میں رکھنے کی مجاز ہوں گی لیکن ٹھوس شواہد کے بغیر کسی بھی شخص کو حراست میں نہیں لیا جا سکے گا۔ زیر حراست شخص کی تین ماہ سے زائد مدت کی حراست کے لیے معقول جواز لازمی قرار دیا گیا ہے۔
ترمیمی بل میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی شق 11 کی مدت میں تین سال کی توسیع کی تجویز دی گئی۔
اس شق کے تحت دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے حکومت کو مزید اختیارات دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ترمیم کے تحت قومی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات پر مشتبہ افراد کی پیشگی گرفتاری کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اراکین اسمبلی کا بل پر اعتراض
قومی اسمبلی اجلاس میں پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل کی مخالفت کر دی۔
انہوں نے کہا کہ ’آئین کے منافی کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 10 کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی حکم دے رکھا ہے کہ بنیادی آئین کے منافی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ سیکشن 11 میں تبدیلی کر کے لفظ حکومت کا لفظ شامل کیا جا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی فرد کو پہلے تین ماہ کے لیے اور پھر تین ماہ مزید بھی نظر بند رکھا جا سکے گا۔ آپ کے پاس دیگر قوانین بھی موجود ہیں۔ اس طرح کے قوانین لانا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’یہ ماہر قوانین جانیں کہ یہ کتنا ضروری ہے یا نہیں۔ ایسے قوانین سے متعلق ماضی بھی ہے۔ یہ دہشت گردی صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں ہے۔ امریکہ اس کا مقابلہ کر رہا تھا پاکستان کی صرف شراکت داری تھی۔
’مشرف دور میں یہ اور نیب قوانین بنائے گئے تھے۔ ہم نے ان قوانین کے تحت پاکستان کے ہر شہری کو پیدائشی مجرم بنا دیا ہے۔ کوئی بھی ادارہ کسی کو بھی گرفتار کر لیتا ہے اور ثابت اس شخص نے کرنا ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔ غلط قانون جو بطور نظیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اے پی ایس حادثے سے ایک سال پہلے شخص کو اٹھایا اور اس میں پھانسی دے دی گئی۔‘