پاکستانی عسکریت پسند سکیورٹی فورسز کے خلاف ڈرون استعمال کر رہے ہیں: پولیس حکام

ریجنل پولیس چیف سجاد خان نے کہا کہ شدت پسند ابھی ان ڈرونز کے مؤثر استعمال پر مہارت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یا انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی طرف سے 15 جولائی 2015 کو جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں مبینہ طور پر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ایک ضلع بھمبر کے قریب لکڑی کی شاخوں پر پڑے ہوئے، تجارتی خریداری کے لیے وسیع پیمانے پر دستیاب ایک قسم کے ہلکے وزنی ماڈل کے ڈرون کا ملبہ دکھایا گیا ہے(اے ایف پی)

پولیس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں نے ملک کے شمال مغرب میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے لیے تجارتی بنیاد پر دستیاب کواڈکاپٹر ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا ہے، جو اس غیر مستحکم علاقے میں ایک خطرناک پیش رفت ہے۔

پولیس حکام کے مطابق ان ڈرونز کا استعمال، جو چار روٹرز کی مدد سے عمودی طور پر اڑان بھر سکتے ہیں اور اتر سکتے ہیں، پہلے سے ہی وسائل کی کمی اور عملے کی قلت کا شکار پولیس فورس کے لیے باعثِ تشویش ہے، جو شدت پسندی کے خلاف فرنٹ لائن پر موجود ہے۔

پولیس افسر محمد انور نے بتایا کہ رواں ماہ کے آغاز میں شدت پسندوں کی جانب سے بھیجے گئے دو کواڈکاپٹرز نے ضلع بنوں میں ایک تھانے کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک خاتون جان سے گئی اور نزدیکی گھر میں تین بچے زخمی ہو گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ہفتے کے روز ایک اور تھانے کے اوپر ایک ڈرون دیکھا گیا، جسے خودکار بندوقوں سے نشانہ بنا کر مار گرایا گیا۔ اس پر مارٹر شیل نصب تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے ڈھائی مہینوں میں بنوں اور ملحقہ علاقوں میں پولیس اور سکیورٹی فورسز پر کم از کم آٹھ ایسے ڈرون حملے ہو چکے ہیں۔

ریجنل پولیس چیف سجاد خان نے کہا کہ شدت پسند ابھی ان ڈرونز کے مؤثر استعمال پر مہارت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا ’عسکریت پسندوں نے یہ جدید آلات حاصل کر لیے ہیں، لیکن وہ ابھی تجربات کے مرحلے میں ہیں، اسی لیے اپنے اہداف کو درست نشانہ نہیں بنا پا رہے ہیں۔‘

پانچ سکیورٹی اہلکاروں نے بتایا کہ عسکریت پسند کواڈ کاپٹرز کے ذریعے اپنے اہداف پر دیسی ساختہ دھماکہ خیز آلات یا مارٹر شیل گرانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان دھماکہ خیز آلات میں اکثر بال بیرنگ یا لوہے کے ٹکڑے بھرے ہوتے ہیں تاکہ زیادہ نقصان ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صوبائی پولیس چیف ذوالفقار حمید نے کہا کہ پولیس کے پاس اس نئے خطرے سے نمٹنے کے لیے وسائل موجود نہیں۔

انہوں نے اتوار کو جیو نیوز کو بتایا، ’ہمارے پاس ڈرونز کو روکنے کا کوئی نظام موجود نہیں،‘ اور یہ کہ ’شدت پسند ہم سے بہتر ہتھیاروں سے لیس ہیں۔‘

تاحال کسی شدت پسند گروہ نے ان ڈرون حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

شمال مغربی پاکستان میں سرگرم مرکزی عسکریت پسند گروہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے ڈرونز کے استعمال کی تردید کی ہے۔

ٹی ٹی پی کے ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز، جو ایک آزاد ادارہ ہے، کے مطابق 2024 میں عسکریت پسندوں نے ملک بھر میں 335 حملے کیے جن میں 520 افراد مارے گئے۔

حالیہ ہفتوں میں سرحدی علاقوں کے ہزاروں رہائشیوں نے مظاہرے کیے۔ مظاہرین کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق یہ حملے صرف عسکریت پسندوں کے حملوں کے خلاف نہیں، بلکہ فوج کی ممکنہ کارروائی کے خدشات کے خلاف تھے۔

انہوں نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر فوجی آپریشن کیا گیا تو انہیں اپنے گھروں سے بے دخل ہونا پڑے گا۔

2014 میں عسکریت پسندوں کے خلاف کیے گئے ایک بڑے فوجی آپریشن سے قبل بھی لاکھوں افراد کو زبردستی انخلا پر مجبور کیا گیا تھا، جنہوں نے مہینوں بلکہ کئی صورتوں میں سالوں اپنے گھروں سے دور گزارے۔

فوج سے یہ پوچھنے پر کہ آیا کوئی آپریشن زیر غور ہے، تو انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان