اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد ایران نے یورپی طاقتوں کے ساتھ نئے مذاکرات کی تصدیق کر دی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سرکاری میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ایرانی سفارت کار جمعے کو استنبول میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی (ای تھری) کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے۔
ان تینوں ممالک نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ جوہری پروگرام پر بات چیت کی میز پر واپس نہیں آتا تو اس پر دوبارہ پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
مغربی ممالک اور اسرائیل طویل عرصے سے ایران پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے. تاہم تہران مسلسل اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بغائی نے سرکاری ٹی وی پر کہا ’یورپی ممالک کی درخواست پر ایران نے مذاکرات کے نئے دور پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ مذاکرات کا موضوع ایران کا جوہری پروگرام ہو گا۔ ایک جرمن سفارتی ذرائع نے اتوار کو اے ایف پی کو بتایا کہ ای تھرئی ممالک ایران سے رابطے میں ہیں۔
ذرائع نے مزید بتایا ’ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اسی لیے جرمنی، فرانس اور برطانیہ ای تھری فارمیٹ میں ایک پائیدار اور قابل تصدیق سفارتی حل تلاش کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔‘
اسرائیل نے 13جون کو ایران پر اچانک فضائی حملے کیے تھے جن کا نشانہ اہم عسکری اور جوہری تنصیبات بنیں۔
اس کے بعد 22 جون کو امریکہ نے بھی ایران کے جوہری پروگرام پر حملے کیے، جن میں قم کے قریب فردو میں یورینیم افزودگی کی تنصیب اور اصفہان و نطنز میں موجود جوہری مراکز کو بی ٹو طیاروں سے نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیل کے 12 روزہ حملے سے قبل ایران اور امریکہ کے درمیان عمانی ثالثی میں جوہری مذاکرات کے کئی دور ہو چکے تھے۔
تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران پر حملوں میں اسرائیل کا ساتھ دینے کے فیصلے نے ان مذاکرات کا خاتمہ کر دیا۔
ای تھری ممالک نے ایرانی نمائندوں سے آخری ملاقات 21 جون کو جینیوا میں کی تھی، یعنی امریکی حملوں سے صرف ایک دن پہلے۔
روئٹرز کے مطابق ای تھری ممالک نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع نہ ہوئے یا کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوئی تو وہ ’سنیپ بیک میکانزم‘ کے ذریعے اقوام متحدہ کی پابندیاں بحال کر دیں گے۔ یہ فیصلہ اگست کے آخر تک کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عباس عراقچی نے کہا ’اگر یورپی یونین یا ای تھری ممالک واقعی کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو انہیں دھمکی اور دباؤ کی پرانی پالیسی ترک کرنی ہو گی۔
’سنیپ بیک جیسے اقدامات کے لیے ان کے پاس نہ تو اخلاقی جواز ہے، نہ قانونی۔‘
سنیپ بیک میکانزم کے تحت 18 اکتوبر سے قبل اقوام متحدہ کی وہ پابندیاں بحال کی جا سکتی ہیں جو 2015 کے معاہدے کے تحت معطل کی گئی تھیں۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان فضائی جنگ سے پہلے ایران اور امریکہ کے درمیان عمان کی ثالثی میں پانچ دور کے مذاکرات ہو چکے تھے۔
تاہم ان میں بڑی رکاوٹ ایران میں یورینیم کی افزودگی کا مسئلہ تھا، جسے مغربی طاقتیں مکمل طور پر ختم کرنا چاہتی ہیں تاکہ جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
ایران مسلسل اصرار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن اور سول مقاصد کے لیے ہے۔
یہ اہم پیش رفت اس وقت ہوئی ہے جب روسی صدر ولادی میر پوتن نے کریملن میں ایران کے سپریم لیڈر کے جوہری امور کے اعلیٰ مشیر علی لاریجانی سے غیر متوقع ملاقات کی۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کے مطابق لاریجانی نے مشرق وسطیٰ میں بگڑتی صورت حال اور ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے اپنی آرا پیش کیں۔
ترجمان نے مزید کہا ’صدر پوتن نے خطے میں استحکام اور ایرانی جوہری پروگرام کے سیاسی حل سے متعلق روس کے مؤقف کو دہرایا۔‘