غزہ میں امداد کے حصول کے دوران اسرائیلی فائرنگ سے 32 فلسطینی قتل: حکام

منگل کو جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ گذشتہ چھ ہفتوں میں غزہ میں امدادی مراکز اور خوراک کے قافلوں کے قریب کم از کم 875 اموات ریکارڈ کی گئیں۔

غزہ کی وزارت صحت اور خان یونس کے ناصر ہسپتال کے مطابق، ہفتے کی صبح کم از کم 32 فلسطینی اسرائیلی فائرنگ کے نتیجے میں اس وقت قتل ہوگئے، جب وہ امدادی سامان کی تقسیم کے مقام کی طرف جا رہے تھے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے ان مشتبہ افراد پر انتباہی فائرنگ کی، جنہوں نے فوجیوں کے قریب آنے اور رکنے کی ہدایت نظر انداز کر دی۔

یہ واقعہ امدادی سامان کی تقسیم کے مقام سے تقریباً ایک کلومیٹر دور پیش آیا، جو اس وقت فعال نہیں تھا۔

غزہ کے رہائشی محمد الخالدی نے کہا کہ وہ ان لوگوں میں شامل تھے، جو امدادی مرکز کی طرف جا رہے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فائرنگ شروع ہونے سے پہلے کسی قسم کی وارننگ نہیں سنی۔

ان کے بقول: ’ہمیں لگا کہ وہ ہمیں منظم کرنے آئے ہیں تاکہ ہم امداد لے سکیں۔ اچانک ایک طرف سے جیپیں اور دوسری طرف سے ٹینک آئے اور ہم پر فائرنگ شروع کر دی گئی۔‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے کہا کہ یہ اموات خان یونس کے جنوب مغرب میں ایک مقام اور رفح کے شمال مغرب میں ایک اور مرکز کے قریب ہوئیں، اموات کی وجہ ’اسرائیلی فائرنگ‘ ہے۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ وہ صبح سے پہلے اپنے پانچ رشتہ داروں کے ساتھ خان یونس کے علاقے التینا کی طرف روانہ ہوئے تاکہ کھانا لینے کی کوشش کی جائے، جب ’اسرائیلی فوجیوں‘ نے فائرنگ شروع کر دی۔

37 سالہ عبدالعزیز عابد نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں اور میرے رشتہ دار کچھ حاصل کرنے سے قاصر تھے۔ ہر روز میں وہاں جاتا ہوں اور ہمیں صرف گولیاں اور کھانے کی بجائے تھکن ملتی ہے۔‘

شمالی غزہ میں اسرائیل کے فضائی حملوں میں 19 جولائی کو قتل کیے جانے والے سات افراد میں 17 سالہ خلود بھی شامل تھیں، جن کی ہفتے کو سالگرہ تھی۔

مقتولہ خلود کی والدہ ایمان عابد نے روئٹرز کو بتایا کہ ’آج اُس کی سالگرہ تھی۔ وہ پورے علاقے میں روٹی کی تلاش میں گھومتی رہی۔ کہہ رہی تھی کہ اگر آٹھ شیکل کی بھی ملے تو لے لوں گی۔ میں نے کہا لے لو۔ قسم سے چھوٹے بچے بھی بھوکے سو گئے۔ اللہ گواہ ہے۔ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ خدا کے لیے (اسے) روک دیں۔ اللہ کی قسم، روک دیں۔‘

ايمان عابد نے مزید بتایا کہ ’دو دن پہلے جب میں اس کے ساتھ جا رہی تھی، وہ کہنے لگی کہ ہمیں شہید کیوں نہیں کر دیا جاتا؟ کیا یہ بہتر نہیں؟، میں نے کہا ایسا مت کہو، کیوں شہادت چاہتی ہو؟ تو بولی، تاکہ جنت جا سکوں، جہاں سب کچھ کھانے کو ملتا ہے، کیلے، سیب اور روٹی، وہاں روٹی بھی ہے۔ ہماری آج کی سب سے بڑی خواہش ایک روٹی ہے۔‘

غزہ ہیومینیٹیرین فنڈ، جو امریکہ کی حمایت یافتہ تنظیم ہے اور یہ امدادی مرکز چلاتی ہے، کا کہنا ہے کہ ہفتے کو وہاں کوئی واقعہ یا کسی کی موت نہیں ہوئی اور وہ بار بار لوگوں کو خبردار کر چکی ہے کہ اندھیرے میں امدادی مراکز کی طرف نہ جائیں۔

تنظیم نے اپنے بیان میں کہا کہ ’آئی ڈی ایف (اسرائیلی فوج) کی کارروائی، جس کے نتیجے میں اموات ہوئیں، ہمارے مراکز کے کھلنے سے کئی گھنٹے پہلے کی گئی اور ہماری معلومات کے مطابق زیادہ تر اموات قریب ترین غزہ ہیومینیٹیرین فنڈ کے مرکز سے کئی کلومیٹر دور ہوئیں۔‘

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کا جائزہ لے رہی ہے۔

امدادی مراکز کے قریب اموات

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غزہ ہیومینیٹرین فنڈ امدادی سامان غزہ پہنچانے کے لیے نجی امریکی سکیورٹی اور لاجسٹکس کمپنیوں کی خدمات لیتا ہے اور اقوام متحدہ کے زیرِ قیادت نظام کو زیادہ نظر انداز کرتا ہے، جس کے بارے میں اسرائیل کا الزام ہے کہ حماس کے عسکریت پسند شہریوں کے لیے اس نظام کے تحت آنے والی امداد لوٹ لیتے ہیں۔ تاہم حماس اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

اقوام متحدہ نے غزہ ہیومینیٹرین فنڈ کے طریقہ کار کو غیر محفوظ اور انسانی امداد کے غیر جانبدارانہ معیار کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، جس کی تنظیم نے تردید کی ہے۔

منگل کو جینیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ گذشتہ چھ ہفتوں میں غزہ میں امدادی مراکز اور خوراک کے قافلوں کے قریب کم از کم 875 اموات ریکارڈ کی گئیں جن میں سے اکثریت غزہ ہیومینیٹرین فنڈ کے زیر اہتمام امداد کی تقسیم کے مراکز کے قریب ہوئی۔

ان اموات کی زیادہ تر وجہ فائرنگ بنی جس کا الزام مقامی افراد نے اسرائیلی فوج پر عائد کیا۔

فوج نے اعتراف کیا ہے کہ شہریوں کو نقصان پہنچا اور کہا کہ اس نے ’حاصل ہونے والے سبق‘ کی روشنی میں اپنے اہلکاروں کو نئی ہدایات جاری کی ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل اور حماس قطر میں فائر بندی کے لیے بالواسطہ مذاکرات میں مصروف ہیں، جس کا مقصد 60 روزہ جنگ بندی تک پہنچنا ہے، تاہم ابھی تک کسی پیش رفت کا کوئی نشان نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا