پینٹاگون کی خفیہ رپورٹ لیک: چین سے جنگ ہوئی تو امریکہ بری طرح ہارے گا

پینٹاگون رپورٹ کے مطابق چین نے ایسی صلاحیت حاصل کرلی ہے جو کسی بھی ممکنہ تنازعے کے آغاز ہی میں امریکہ کے اہم عسکری اثاثوں کو ناکارہ بنا سکتی ہے۔

چین کے پاس موجودہ ڈینگ فینگ 31 میزائل کی رینج 12 ہزار کلو میٹر ہے جو امریکہ کے زیادہ تر حصوں کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے (اے پی)

پینٹاگون کی ایک انتہائی خفیہ رپورٹ کے مطابق اگر امریکہ تائیوان پر جنگ کی صورت میں مداخلت کرے تو چین کے ہاتھوں اس کی شکست کا امکان بہت زیادہ ہو گا۔

پینٹاگون کی جنگی مشقوں میں تائیوان پر چینی حملے کے مختلف منظرنامے تشکیل دیے گئے جن میں دیکھا گیا کہ چین امریکی لڑاکا طیاروں کے سکواڈرن، بڑے جنگی بحری جہازوں اور سیٹلائٹ نیٹ ورکس کو مؤثر انداز میں تعیناتی سے قابل ہی مفلوج کرسکتا ہے۔ یہ انتباہ خفیہ دستاویز ’اوورمیچ بریف‘ میں دیا گیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ دستاویز پینٹاگون کے ’آفس آف نیٹ اسسمنٹ‘ نے تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کا مہنگے اور جدید ہتھیاروں پر انحصار اسے چین کے تیزی سے بننے والے سستے ہتھیاروں کے مقابلے میں کمزور بناتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے ایسی صلاحیت حاصل کرلی ہے جو کسی بھی ممکنہ تنازعے کے آغاز ہی میں امریکہ کے اہم عسکری اثاثوں کو ناکارہ بنا سکتی ہے۔

یہ رپورٹ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جی آکن نے چند روز قبل امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’تائیوان کے معاملے کو انتہائی احتیاط سے‘ نمٹے۔

حال ہی میں وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ حکام تک پہنچائی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کا تیزی سے ترقی کرتا ہوا اسلحہ خانہ، خصوصاً اس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے درست نشانہ زن میزائل، جدید طیاروں کا پھیلتا ہوا بیڑا، بڑے بحری جہاز اور خلا میں کارروائی کی صلاحیت نے اسے خطے میں امریکی افواج پر واضح آپریشنل برتری حاصل ہو چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین کے پاس تقریباً 600 ہائپرسونک ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیزی سے سفر کرسکتے ہیں اور انہیں روکنا انتہائی مشکل ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق جب بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار کو 2021 میں یہ ’اوورمیچ‘ بریفنگ دی گئی تو انہیں احساس ہوا کہ ’ہماری ہر حکمت عملی کے مقابلے میں چین کے پاس کئی متبادل موجود ہیں‘، جس پر ان کا چہرہ اتر گیا تھا۔

بیجنگ تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ دو کروڑ 30 لاکھ آبادی والے اس جزیرے کو بالآخر طاقت کے ذریعے بھی چین سے ملا دیا جائے گا۔ تائیوان خود کو ایک آزاد، خودمختار ملک قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے مستقبل کا فیصلہ صرف وہاں کے عوام کریں گے، چین نہیں۔

اگرچہ چین نے تائیوان پر حملے کی کوئی تاریخ نہیں دی، لیکن مغربی ممالک کی انٹیلیجنس اور تجزیوں کے مطابق چین 2027 کے قریب تائیوان پر قبضے کی کوشش کرسکتا ہے جو شی جن پنگ کے عسکری جدید کاری کے اہداف سے مطابقت رکھتی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چین گذشتہ 20 سال میں جمع کیے گئے میزائلوں کی مدد سے امریکہ کے کئی جدید ہتھیاروں، خصوصاً طیارہ بردار بحری جہازوں کو تائیوان پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کرسکتا ہے۔ جنگی مشقوں میں یہ بھی دیکھا گیا کہ امریکی بحریہ کا جدید ترین کیریئر بھی چینی حملہ برداشت نہیں کر پائے گا۔

اس ضمن میں امریکہ کے جدید ترین ایئرکرافٹ کیریئر یو ایس ایس جیرالڈ آر فورڈ کی مثال دی گئی جس کی تعمیر پر 13 ارب ڈالر لاگت آئی اور اسے 2022 میں تعینات کیا گیا۔ نئی ٹیکنالوجی کے باوجود یہ جہاز چین کے حملے کے مقابلے میں ’انتہائی کمزور‘ قرار پایا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر یہ بحری جہاز وینزویلا جیسے کسی کمزور ملک خلاف مؤثر ہوسکے گا مگر چین کے جدید ہتھیاروں کے سامنے نہیں۔

رپورٹ میں یوکرین جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس جنگ نے ثابت کیا ہے کہ ٹینک اب پہلے کی طرح موثر نہیں رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق امریکہ کے پاس اب وہ صنعتی صلاحیت نہیں رہی کہ وہ کسی بڑی طاقت کے ساتھ طویل جنگ کے لیے مطلوبہ رفتار اور مقدار میں ہتھیار تیار کرسکے۔ واشنگٹن جدید ہتھیاروں کی تیز رفتار پیداوار میں چین اور روس سے بھی پیچھے ہے کیونکہ وہ مہنگے اور نسبتاً کمزور ہتھیاروں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

امریکی وزیر دفاع پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ چین کے خلاف پینٹاگون کی جنگی مشقوں میں ’ہم ہر بار ہار جاتے ہیں‘ اور چین کے ہائپرسونک میزائل چند منٹوں میں امریکی طیارہ بردار جہاز تباہ کرسکتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ کے میزائل ذخائر اسرائیل اور یوکرین کی مدد کے دوران خاصے کم ہو چکے ہیں۔

نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان بھی خبردار کرچکے ہیں کہ چین کے ساتھ جنگ کی صورت میں امریکہ کے اہم ہتھیار بہت جلد ختم ہوجائیں گے۔

پینٹاگون کی داخلی رپورٹس کے مطابق کروز اور بیلسٹک میزائلوں کے تقریباً ہر شعبے میں چین امریکہ سے آگے نکل چکا ہے حالانکہ دونوں ممالک کے پاس تقریباً 400 انٹرکانٹینینٹل بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔

مزید یہ کہ ایران کی جانب سے جون میں اسرائیل پر 12 روزہ بیلسٹک میزائل حملوں کے دوران امریکہ نے اپنے اونچی پرواز روکنے والے میزائلوں کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ استعمال کر ڈالا۔

دی انڈپینڈنٹ نے تبصرے کے لیے پینٹاگون اور امریکی محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا