پاکستان انڈیا لڑائی میں چینی ہتھیاروں اور طیاروں کا امتحان

سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے جیمز چار کے مطابق رفال کو یورپ کے سب سے جدید لڑاکا طیاروں میں شمار کیا جاتا ہے جب کہ ’جے 10 سی تو چین کا سب سے جدید طیارہ بھی نہیں۔‘

21 مارچ 2024 کو اسلام آباد میں پاکستان ایئر فورس کے J-10C لڑاکا طیارے پاکستان کے قومی دن کی پریڈ سے قبل ایک ریہرسل میں پرفارم کر رہے ہیں (عامر قریشی / اے ایف پی)

انڈیا کے ساتھ جنگ بندی کے صرف ایک ہفتے بعد، پاکستان کے وزیر خارجہ اپنے ملک کے سب سے بڑے اسلحہ فراہم کنندہ، چین کے دورے پر ہیں، جہاں چین کی جانب سے فراہم کردہ ہتھیاروں کی کارکردگی تجزیہ کاروں اور حکومتوں کے لیے یکساں طور پر گہری دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے۔

ماہ رواں میں ہونے والی چار روزہ لڑائی کا سب سے نمایاں دعویٰ اسلام آباد کا یہ تھا کہ اس کے چینی ساختہ طیاروں نے انڈین فضائیہ کے چھ جنگی طیارے مار گرائے جن میں تین فرانسیسی ساختہ رفال بھی شامل ہیں۔ بعض مبصرین نے اسے بیجنگ کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کی علامت کے طور پر دیکھا۔

اے ایف پی سے بات کرنے والے ماہرین نے خبردار کیا کہ مصدقہ معلومات کی کمی اور لڑائی کے محدود دائرے کے باعث چینی ہتھیاروں کی صلاحیت کے بارے میں ٹھوس نتائج اخذ کرنا مشکل ہے۔

اس کے باوجود، ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ کے لائل مورس نے کہا کہ ’یہ بین الاقوامی برادری کے لیے ایک نادر موقع تھا کہ وہ میدان جنگ میں چینی فوجی ساز و سامان کو مغربی (انڈین) ساز و سامان کے مقابلے میں پرکھ سکے۔‘

اگرچہ چین ہر سال دفاعی اخراجات پر سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کرتا ہے، لیکن اسلحہ برآمد کرنے کے معاملے میں وہ امریکہ سے بہت پیچھے ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ )ایس آئی پی آر آئی( کے سینیئر محقق سیمن ویزمین نے اے ایف پی کو بتایا کہ چین کے ڈرون انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں استعمال ہوتے ہیں، اور اس کے ہتھیار سعودی عرب نے یمن میں اور افریقی ممالک میں باغی فورسز کے خلاف تعینات کیے۔

ویز مین نے کہا کہ ’لیکن یہ 1980 کی دہائی کے بعد پہلا موقع ہے کہ کسی ریاست نے دوسرے ملک کے خلاف مختلف اقسام کے چینی ہتھیار بڑی تعداد میں عملی طور پر استعمال کیے۔‘

انہوں نے ایران-عراق جنگ کا حوالہ دیا، جب یہ ہتھیار دونوں فریقوں کی جانب سے استعمال کیے گئے۔

ایس آئی پی آر آئی کے مطابق چین کی اسلحہ برآمدات کا تقریباً 63 فیصد حصہ پاکستان کے حصے میں آتا ہے۔

حالیہ لڑائی میں پاکستان نے جے 10 سی وگورس ڈریگن اور جے ایف 17 تھنڈر طیارے استعمال کیے، جو فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے لیس تھے۔

سٹم سن سینٹر کی ین سن کے مطابق، یہ پہلا موقع تھا کہ جے 10 سی کو کسی عملی لڑائی میں استعمال کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد کی فضائی دفاعی نظام میں بھی چینی ساز و سامان استعمال کیا گیا جس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والا زمین سے فضا میں مار کرنے والا میزائل سسٹم ایچ کیو نائن پی شامل تھا اور ساتھ ہی چینی ریڈار، مسلح ڈرون اور نگرانی کرنے والے ڈرون بھی تعینات کیے گئے۔

ٹورنٹو میں قائم قوہ ڈیفنس نیوز اینڈ اینالسس گروپ کے بانی بلال خان نے کہا کہ ’یہ پہلی طویل لڑائی تھی جس میں پاکستان کی زیادہ تر فورسز نے چینی ہتھیار استعمال کیے اور بنیادی طور پر انہی پر انحصار کیا۔‘

انڈیا نے سرکاری طور پر یہ تصدیق نہیں کی کہ اس کا کوئی طیارہ تباہ ہوا حالاں کہ ایک اعلیٰ سکیورٹی ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ تین جنگی طیارے ملکی سرزمین پر گر کر تباہ ہوئے، تاہم اس نے نہ تو طیاروں کی قسم بتائی اور نہ ہی ان کی تباہی کی وجہ۔ رفال بنانے والی کمپنی ڈسالٹ نے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی کے جیمز چار کے مطابق رفال کو یورپ کے سب سے جدید لڑاکا طیاروں میں شمار کیا جاتا ہے جب کہ ’جے 10 سی تو چین کا سب سے جدید طیارہ بھی نہیں۔‘

چار کا کہنا ہے کہ لیکن اگر پاکستان کے دعوے درست ہیں، ’تو یہ حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ رفال ایک ملٹی رول فائٹر ہے، جب کہ جے 10 سی  کو فضائی لڑائی کے لیے بنایا گیا ہے اور یہ زیادہ طاقتور ریڈار سے بھی لیس ہے۔‘

تاہم قوہ کے بلال خان نے کہا کہ چینی فضائی دفاعی نظام ’اتنے مؤثر نظر نہیں آئے جتنی توقع پاکستان ایئر فورس کو تھی۔‘ ایسا اس کے بعد ہوا جب انڈیا نے دعویٰ کیا کہ اس نے لاہور کے مشرقی سرحدی شہر کے قریب ایک نظام کو ناکارہ بنا دیا ہے۔

ایس آئی پی آر آئی کے ویزمین نے کہا کہ اگر یہ درست ہے تو ’یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی اور اس عمل میں کسی طیارے کے نقصان کو متوازن کر دینے سے زیادہ بڑی بات ہو گی۔‘
ڈاگ فائٹ کی خبروں کے بعد کے دنوں میں جے 10 سی  بنانے والی چنگدو ایئر کرافٹ کمپنی کے شیئرز کی قیمت میں 40 فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔

سٹمسن سینٹر کی سن نے کہا کہ ’زیادہ امکان ہے کہ اب مزید آرڈرز چینی ٹھیکےداروں کو دیے جائیں گے۔‘

تاہم امریکی تھنک ٹینک ڈیفنس پرائیورٹیز کی جینیفر کیوانا نے کہا کہ ’چین کو بڑا اسلحہ برآمد کنندہ بننے کے لیے وقت لگے گا اور اسلحہ ساز اداروں کی بڑی سطح کی نئی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ چین ’کچھ اہم پرزہ جات، جیسے کہ طیاروں کے انجن، کو بڑے پیمانے پر تیار نہیں کر سکتا‘۔

ویز مین نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ سٹاک مارکیٹوں نے ’زیادہ ردعمل دیا‘ کیوں کہ ’ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ استعمال ہونے والے تمام ہتھیار کتنے مؤثر رہے اور آیا یہ سب واقعی کوئی بڑی اہمیت رکھتے ہیں یا نہیں۔‘

تجزیہ کاروں نے کہا کہ چاہے مزید معلومات سامنے آ جائیں، یہ تنازع چینی فوج کی اپنی صلاحیتوں کے بارے میں زیادہ کچھ ظاہر نہیں کرتا۔

چین کے اپنے نظام اور ہتھیار اس کی برآمد کردہ اشیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ جدید ہیں۔

کیوانا کہتے ہیں کہ اگرچہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ساز و سامان اہم ہوتا ہے لیکن ’اس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ ان ہتھیاروں کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے؟‘

سی ایس آئی ایس کے برائن ہارٹ نے کہا کہ وہ حالیہ پیش رفت کے بارے میں ’زیادہ مطلب اخذ کرنے‘ سے گریز کا مشورہ دیں گے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ ان چینی ساختہ نظاموں کا موازنہ مختلف ماحول میں، امریکہ جیسے زیادہ جدید حریفوں کے خلاف، براہ راست کیا جا سکتا ہے۔‘

’چوں کہ معلومات کے نکات محدود ہیں اور دونوں طرف موجود عملے کی مہارت اور تربیت کے بارے میں بھی زیادہ کچھ معلوم نہیں، اس لیے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا