پاکستانی فوج نے خبردار کیا ہے کہ دریائے سندھ کے پانی کے نظام میں اسلام آباد کا حصہ کم کرنے کی حالیہ دھمکیوں پر عمل کرنے کی انڈیا کی کسی بھی کوشش کے ایسے ’نتائج‘ سامنے آئیں گے جو نسلوں تک محیط ہوں گے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں گذشتہ ماہ سیاحوں پر فائرنگ کے نتیجے میں کئی افراد کی اموات کا الزام انڈیا نے پاکستان پر لگایا تھا اور پاکستان کے ساتھ دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے ’سندھ طاس معاہدے‘ کو معطل کرنے سمیت کئی اقدامات کیے تھے۔
اسلام آباد نے پہلگام کے حملے کے فورا بعد واقعے کی مذمت کی تھی اور انڈیا کے الزامات کی تردید کی تھی۔
پہلگام کے واقعے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے درمیان لائن آف کنٹرول اور سفارتی محاذوں پر کشیدگی رہی جس کے بعد انڈیا نے چھ مئی 2025 کو پاکستان کے اندر کئی مقامات پر حملے کیے جن میں پاکستانی علاقوں میں موجود مبینہ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا۔
پاکستان نے ان حملوں کے جواب میں نو اور 10 مئی کی درمیانی شب انڈین فوجی تنصیبات پر جوابی کارروائیاں کیں۔
10 مئی کو ہی امریکہ کی ثالثی سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان فائر بندی پر اتفاق ہوا لیکن اس کے باوجود انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے رواں ہفتے اعلان کیا کہ انڈیا پاکستان جانے والے پانی کا بہاؤ روک دے گا جب کہ پاکستان پہلے ہی اس اقدام کو اپنی بقا کے خلاف براہ راست جنگی اقدام قرار دے چکا ہے۔
پاکستان انڈیا کو خبردار کر چکا ہے کہ اگر انڈیا نے پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جو اس کے غذائی تحفظ کے لیے انتہائی اہم ہے اور کسی دوسرے دریا کا پانی روکنے کی کوشش کی تو وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعے کو عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں کہا: ’امید کرتا ہوں ایسا وقت کبھی نہ آئے لیکن اگر ایسے اقدامات کیے گئے تو دنیا دیکھے گی اور ان کے ایسے نتائج برآمد ہوں گے جن کے لیے ہمیں برسوں اور دہائیوں تک لڑنا پڑے گا۔ کوئی بھی پاکستان کا پانی روکنے کی ہمت نہ کرے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’صرف کوئی پاگل شخص ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ وہ اس ملک کے 24 کروڑ سے زائد لوگوں کا پانی روک سکتا ہے۔‘
پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مطابق انڈیا کے حالیہ حملوں میں 40 شہری جان سے گئے جن میں 22 خواتین اور بچے شامل ہیں۔ پاکستان نے جوابی کارروائی میں انڈیا کے 26 فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی مسلح افواج پیشہ ور افواج ہیں اور ہم اپنے کیے گئے وعدوں کی مکمل پاسداری کرتے ہیں اور ہم سیاسی حکومت کی ہدایات کو مکمل طور پر حرف بہ حرف مانتے ہیں اور ان کے عزم کا پاس رکھتے ہیں۔‘
ان کے بقول: ’جہاں تک پاکستان آرمی کا تعلق ہے یہ جنگ بندی آسانی سے برقرار رہے گی اور فریقین کے درمیان رابطے میں اعتماد سازی کے اقدامات کیے گئے ہیں۔ البتہ اگر خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہمارا جواب ہمیشہ ہوگا اور موقع پر ہوگا لیکن وہ صرف ان ہی چوکیوں اور مقامات پر ہوگا جہاں سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔‘
پاکستان اور انڈیا فائر بندی کے بعد بھی کئی بار اس کی خلاف ورزیوں کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر چکے ہیں اور جبکہ دونوں ممالک کی حکومتیں فائر بندی کی خلاف ورزیوں سے انکار کرتی رہی ہیں۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان اس سے قبل بتا چکے ہیں کہ چار روزہ تصادم کے دوران پاکستان نے انڈیا کے پانچ لڑاکا طیاروں اور ایک جدید روسی دفاعی نظام ایس400 کو تباہ کیا ہے۔ گرائے جانے والے طیاروں میں میں فرانس کے رفال جنگی طیارے بھی شامل تھے اور اس کے علاوہ پٹھان کوٹ سمیت کئی فضائی اڈوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔
اختتام ہفتہ پاکستانی وزیر اعظم نے بتایا کہ پاکستان نے پانچ کے بجائے چھ انڈین طیارے مار گرائے ہیں۔
افواج پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’میں تصدیق کر سکتا ہوں کہ چھٹا گرنے والا طیارہ میراج 2000 ہے۔ ہم نے صرف طیاروں کو نشانہ بنایا۔ ہم مزید کارروائی سکتے تھے مگر ہم نے ضبط کا مظاہرہ کیا۔‘
چھ مئی کو پاکستان میں ہونے والے انڈین حملوں کے بعد حاصل ہونے والی سیٹلائٹ تصاویر میں پاکستانی فضائی اڈوں پر نمایاں نقصان دکھائی دیا۔
میکسار ٹیکنالوجیز کی اعلیٰ معیار کی تصاویر میں رن وے پر گہرے گڑھے اور ہینگرز سمیت دیگر ڈھانچوں کی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ اس کے باوجود تمام فضائی اڈے مکمل طور پر فعال ہیں۔
ان کے بقول: ’پاکستانی فضائیہ کے پاس وہ ذرائع موجود ہیں جن کی مدد سے وہ فوری طور پر اڈوں کو فعال کر سکتی ہے اور وہ سب فعال ہیں۔میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا: ’ان (انڈیا کی) کشمیر پالیسی، ظلم و جبر اور اسے اندرونی معاملہ بنانے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔‘
ان کے بقول: ’جب تک انڈیا کشمیر پر بات چیت نہیں کرتا، جب تک ہم دونوں ممالک بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کرتے، تب تک تنازع کی آگ بھڑکنے کا خطرہ موجود رہے گا۔‘