دور حاضر میں جنگیں فضا، زمین اور پانیوں سے زیادہ انفارمیشن کے میدان میں لڑی جاتی ہیں اور اس کا تازہ ثبوت پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی تھی۔
اس کشیدگی کے دوران نہ صرف دونوں ممالک کی افواج آمنے سامنے آئیں بلکہ انٹر سروسز پبلک ریلیشنز پاکستان (آئی ایس پی آر) اور پریس انفارمیشن بورڈ (پی آئی بی) انڈیا نے بھی اپنی اپنی مہارت کا مظاہرہ کیا۔
انڈیا کی جانب سے گذشتہ ہفتے پاکستان کے مختلف شہروں میں فضائی حملوں کی رودار سنانے انڈین ٹی وی چینلز پر جب کرنل صوفہ قریشی اور ونگ کمانڈر وومیکا سنگھ نمودار ہوئیں اور لکھے ہوئے سکرپٹ کے ذریعے ہی سہی، لیکن اپنے ملک کا موقف بیان کیا تو دنیا بھر حقوق نسواں اور خواتین کی ہر شعبے میں نمائندگی کی علم بردار تنظیموں کے علاوہ عام لوگوں نے بھی اسے مثبت انداز میں دیکھا اور پہلے ہی دن انڈیا کو بظاہر پاکستان پر اخلاقی و اعصابی برتری حاصل ہو گئی۔
دونوں خواتین کا تعلق انڈیا کی اقیلتی برادری سے ہے، اس لیے وہاں یہ بھی ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ انڈیا میں سب ملکی دفاع کے لیے یک جان و زبان ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ یہاں بھی دراصل برتری وکرم مسری کو ہی حاصل تھی جنہوں نے ان خواتین کو لکھے ہوئے سکرپٹ سے آگے بڑھنے نہیں دیا اور باقی تمام سوالات کے جوابات خود دیتے رہے۔
دو تین دن سوشل میڈیا پر گفتگو اور تعریفوں کا مرکز رہنے کے بعد ان خواتین کو مختلف میمز میں جگہ ملنی شروع ہو گئی شاید اس کی وجہ ان کا محدود کردار تھا اور ذرائع ابلاغ کو ان سے سوال کرنے اور انہیں جواب دینے کی اجازت نہیں تھی۔
سہیل اختر قاسمی صحافی ہیں اور دلی میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’سرحد پار جو بریفنگ ہوتی تھی اس میں الفاظ خاصے سخت ہوتے تھے اور ان میں جنگ کے اثرات ہوتے تھے جبکہ انڈیا کی بریفنگ میں نپے تلے الفاظ کا استعمال ہوتا تھا جن میں ایسا نہیں لگتا تھا کہ بڑی دھمکیاں ہیں۔‘
سہیل اختر قاسمی کا کہنا ہے کہ ’انڈیا میں اس جنگ کے دوران حکومتی جماعت کے رہنماؤں کے انٹرویوز اور بیانات سامنے نہیں آئے جبکہ پاکستان میں متعلقہ افراد اور حکومتی جماعت نے کھل کر بات کی ہے۔‘
سہیل سمجھتے ہیں کہ پاکستان کسی حد تک اپنا بیانیہ بنانے میں کامیاب رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ بظاہر ان کا میڈیا کے ساتھ زیادہ انٹرایکشن ہے۔
جب باری پاکستان کی آئی تو وہاں مسلح افواج کے ترجمان ادارے کے سربراہ ہمیشہ کی طرح خود نظر آئے۔ خواتین کی عدم شمولیت اور روایتی انداز کی وجہ سے سب نے بار بار صوفیہ قریشی اور وومیکا سنگھ سے موازنہ کیا۔ پاکستانیوں کی حس مزاح کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہیں۔۔۔۔
لیکن جب انڈیا نے حملے کیے اور ان کے بارے میں باقاعدہ بریفنگ کا آغاز ہوا تو یہی روایتی آئی ایس پی آر ایک نئے انداز میں سامنے آیا۔
کرنل اور ونگ کمانڈر اور لیفیننٹ جنرل کے تجربے کا فرق واضح ہونا اس وقت شروع ہوا جب بحری اور فضائی افواج کے اعلیٰ افسران دائیں بائیں بیٹھے دکھائی دیے جو ذرائع ابلاغ کو سوالات کے جوابات بھی دیتے اور انہیں لکھے ہوئے سکرپٹ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
یہاں انڈین بریفنگ کے برعکس انگریزی اور اردو میں اپنا بیان دینے کے بعد مقامی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے درجنوں سوالات لیے جاتے جنہیں براہ راست نشر کیا جاتا تھا۔ اپنے نقصان سے ’دشمن‘ کے نقصان تک ہر سوال کا جواب دیا جاتا اور کسی سوال کو حالت جنگ میں ہونے کی وجہ سے تشنہ نہیں چھوڑا جاتا۔
اعجاز احمد اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی ہیں اور آئی ایس پی آر کو کور کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ ’اس بار پاکستان کے پاس بتانے کو بہت کچھ تھا، انڈین حملوں کے بعد پاکستانی کارروائی میں رفال کے نقصان کے بعد ان کی باڈی لینگویج مثبت اور پر اعتماد تھی، ڈی جی آئی ایس پی آر سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں گذشتہ دو بریفنگز کے دوران وہ مسکراتے رہے اور چٹکلے بھی سناتے رہے لیکن اس کے برعکس انڈین حکام میں بظاہر اعتماد کی کمی تھی اور بتانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔‘
خواتین کے محدود کردار کے سبب جلد ہی انڈیا میں صوفیہ قریشی اور وومیکا سنگھ سے توجہ ہٹنا شروع ہو گئی لیکن پاکستان میں اورنگزیب ’نیشنل کرش‘ بننا شروع ہو گئے۔ وہاں وہ بریفنگز میں پاکستان فضائیہ کی تزویراتی حکمت عملی سے لے کر ’6-0‘ کا سکور بتاتے تھے اور سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر کا مقابلہ انڈین بریفنگز سے کیا جانے لگا۔
خواتین کو قومی بیانیہ بیان کرنے کا موقع دے کر جو فائدہ حاصل ہوا وہ نقصان میں بدلنا شروع ہو گیا کیوں کہ لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ کیا کرنل صوفیہ یا ونگ کمانڈر وومیکا بھی ایسے ہی پریزنٹیشن دے سکتی ہیں؟
ذرائع ابلاغ کے سامنے اپنے انڈین ہم منصب کے بارے میں کچھ برا کہنے سے معذرت کے بعد ایئر وائس مارشل اورنگزیب کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملنا شروع ہوئی۔
ایک جانب انڈین صحافیوں کو تین مختلف بریفنگز میں سوال کرنے کے باوجود اس بات کا جواب نہیں مل پا رہا تھا کہ پاکستان نے کتنے رفال طیارے گرائے ہیں جبکہ پاکستانی صحافیوں کو واضح طور پر بتا دیا گیا کہ کوئی انڈین پائلٹ گرفتار نہیں اور پاکستان کے کتنے شہری کہاں کہاں اور کس مقام پر انڈین حملوں کا نشانہ بنے۔
پاکستانی صحافی اعجاز احمد کہتے ہیں کہ ’پاکستانی بریفنگز میں حکام نے الیکٹرانک سگنیچرز کے ساتھ ثبوت پیش کیے گئے جو کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ثابت ہوتے رہے جبکہ سوائے نور خان ایئر بیس اور بھولاری کے انڈین دعوے آج تک ثابت نہیں ہو سکے۔‘
پاکستانی اور انڈین بریفنگز میں ایک بات مشترک رہی اور وہ یہ کہ کس صحافی کے سوال لینے ہیں اور کسے ان سنا کرنا ہے، یہ فیصلہ ایک باوردی افسر ہی طے کرتا ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ انڈیا میں ہر نشست پر بیٹھے صحافی کو سوال کرنے کے لیے ایک نمبر کا پلے کارڈ اٹھانا پڑتا ہے اور پینل سے اس نمبر کی آواز لگائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں ہر صحافی کا نام لے کر مائیک اس کے حوالے کیا جاتا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں بریفنگ میں شریک ہر صحافی کو انتظامیہ جانتی ہے تاہم انڈیا میں بظاہر پینل میں بیٹھے لوگوں کا تعارف صحافیوں سے نہیں ہوتا۔