پاکستان اور انڈیا میں براہ راست مذاکرات کے حامی: امریکہ

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکہ، انڈیا اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت کا حامی ہے اور روابط بہتر بنانے کی مسلسل کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

چھ مئی 2025 کی اس تصویر میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو واشنگٹن، ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی سٹیو وٹ کوف کی حلف برداری کی تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے سن رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ امریکہ، انڈیا اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت کا حامی ہے اور روابط بہتر بنانے کی مسلسل کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے اتوار کی شب برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔  

دونوں رہنماؤں نے جنوبی ایشیائی پڑوسیوں پر جنگ بندی  اور رابطہ قائم رکھنے پر زور دیا۔

امریکی وزیر خارجہ نے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی اور جرمن چانسلر فریڈرک مرز سے ٹیلی فون پر الگ الگ بات چیت کی اور یوکرین جنگ پر امریکہ کے مؤقف کی توثیق کی۔

فریڈرک مرز سے علیحدہ گفتگو میں روبیو نے انہیں چانسلر بننے پر مبارکباد دی اور دونوں ممالک کے درمیان یوکرین جنگ کے خاتمے کے مشترکہ ہدف پر تبادلہ خیال کیا۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان گذشتہ کئی روز سے جاری جنگی صورت حال کے بعد اتوار کی شام جنگ بندی کا انعقاد ہوا۔ 

 

دونوں پڑوسی ملک گذشتہ تقریباً چار روز سے ایک دوسرے پر میزائلوں، ڈرونز اور توپ خانے سے حملے کر رہے تھے، جن میں کم از کم 60 افراد جان سے گئے اور ہزاروں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔

یہ 1999 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کارگل کی جنگ میں ہونے والی اموات کے بعد سے شدید ترین جھڑپیں تھیں۔ 

جھڑپوں کو ’مکمل اور فوری‘ روکنے کا اعلان غیر متوقع طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ’امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی طویل رات کی بات چیت‘ کے بعد ممکن ہوا۔

اتوار کی صبح انڈیا کے سکریٹری خارجہ نے کہا کہ نئی دہلی نے پاکستان کی طرف سے جنگ بندی کی ’بار بار خلاف ورزیوں‘ کے بعد جوابی کارروائی کی ہے، جب کہ پاکستان نے کہا کہ وہ جنگ بندی کے لیے ’پرعزم ہے‘ اور اس کی افواج ’ذمہ داری اور تحمل‘ کے ساتھ انڈیا کی خلاف ورزیوں سے نمٹ رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیحتی مقام پہلگام میں نامعلوم اسلحہ برداروں کے حملے میں 26 افراد کے قتل کے بعد دہلی نے اس کا الزام پاکستان پر لگایا تھا، جس کی اسلام آباد نے سختی سے تردید کی۔

انڈیا نے پاکستان کے اندر ’دہشت گردوں‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے نام پر اپنے پڑوسی پر ہوائی جہازوں ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے حملے کیے، جس کے بعد دونوں پڑوسیوں کے درمیان حملوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ 

امریکی صدر نے اتوار کو ایک بیان میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان اور انڈیا کے ساتھ کشمیر کا حل نکالنے کے لیے کوشش کریں گے۔

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’میں دونوں (پاکستان، انڈیا) کے ساتھ کام کروں گا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ’ہزاروں سال‘ بعد کشمیر کے معاملے کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔‘

پاکستان نے اسی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کشمیر کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرنے کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم صدر ٹرمپ کی اس آمادگی کو بھی سراہتے ہیں جو انہوں نے مسئلہ جموں و کشمیر کے حل کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کے اظہار کے طور پر ظاہر کی ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ ایک دیرینہ تنازع ہے جو جنوبی ایشیا اور اس سے باہر کے امن اور سلامتی پر گہرے اثرات رکھتا ہے۔‘

پاکستان کے دفتر خارجہ کا مزید کہنا ہے کہ ’پاکستان اس مؤقف کا اعادہ کرتا ہے کہ جموں و کشمیر کے تنازع کا کوئی بھی منصفانہ اور دیرپا حل متعلقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے اور اسے کشمیری عوام کے بنیادی حقوق، خصوصاً ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول کو یقینی بنانا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا