پاکستان، عرب اور دیگر اسلامی ممالک نے ہفتے کو مشترکہ طور پر اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کے ’گریٹر اسرائیل‘ کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔
نتن یاہو نے 12 اگست کو اسرائیلی چینل آئی 24 کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ خود کو ایک ’تاریخی اور روحانی مشن‘ پر محسوس کرتے ہیں اور ’گریٹر اسرائیل‘ کے تصور سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔
سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کے مطابق پاکستان، عرب اور دیگر مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشرکہ بیان میں ہفتے کو اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کے وزرا کے ان بیانات کی مذمت کی، جن میں نام نہاد ’گریٹر اسرائیل‘ کا ذکر کیا گیا۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو اور ان کے وزیروں کے یہ اعلانات بین الاقوامی قانون کی ’کھلی اور خطرناک خلاف ورزی‘ ہیں۔
بیان کے مطابق: ’یہ اعلانات عرب قومی سلامتی، ریاستوں کی خودمختاری، علاقائی و عالمی امن و سکیورٹی کے لیے براہ راست خطرہ ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان پر دستخط کرنے والوں میں سعودی عرب، الجزائر، بحرین، بنگلہ دیش، چاڈ، کوموروس، جبوتی، مصر، گیمبیا، انڈونیشیا، عراق، اردن، کویت، لبنان، لیبیا، مالدیپ، موریطانیا، مراکش، نائیجیریا، عمان، پاکستان، فلسطین، قطر، سینیگال، سیرالیون، صومالیہ، سوڈان، شام، ترکی، متحدہ عرب امارات اور یمن کے وزرائے خارجہ شامل ہیں۔
عرب لیگ، تنظیم تعاون اسلامی اور خلیجی تعاون کونسل کے سیکریٹری جنرل نے بھی بیان پر دستخط کیے ہیں۔
وزرائے خارجہ نے زور دیا کہ ’ان کے ملک بین الاقوامی قانونی جواز اور اقوام متحدہ کے منشور، بالخصوص آرٹیکل دو، شق چار، جس میں طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی پر پابندی ہے، کے احترام کا اعادہ کرتے ہیں۔
’وہ ایسی تمام پالیسیوں اور اقدامات کو اپنائیں گی جو امن کو برقرار رکھیں اور اس انداز میں جو تمام ریاستوں اور عوام کے مفاد میں سکیورٹی، استحکام اور ترقی کے حصول کو ممکن بنائے اور غلبے کے فریبوں اور طاقت کے ذریعے جبر سے دور ہو۔‘
وزرائے خارجہ نے مغربی کنارے کے ’ای ون‘ علاقے میں (یہودی) بستی کے منصوبے کی منظوری پر انتہا پسند اسرائیلی وزیر بیزالیل اسموترچ کے خلاف مؤقف اختیار کیا اور ان کے ان شدت پسند نسل پرستانہ بیانات کی بھی مخالفت کی، جن میں انہوں نے فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کیا۔
مشترکہ بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کا منصوبہ ’بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی اور فلسطینی عوام کے اس ناقابلِ تنسیخ حق پر سنگین حملہ ہے، جس کے تحت وہ چار جون، 1967 کی سرحدوں پر اپنی آزاد، خودمختار ریاست قائم کریں، جس کا دارالحکومت مقبوضہ بیت المقدس ہو۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطینی عوام، ان کے پڑوسیوں اور مجموعی طور پر بین الاقوامی برادری کے حقوق کو نظرانداز کرنے کا اسرائیل کا یہ رویہ ’براہِ راست تشدد اور تنازع کو ہوا دیتا ہے اور خطے میں منصفانہ اور جامع امن کے امکانات کو کمزور کرتا ہے۔‘
وزرا نے ’اسرائیل کی جارحیت، نسل کشی اور نسلی تطہیر کے جرائم‘ کو مسترد اور مذمت کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ غزہ کی پٹی میں فوری جنگ بندی اور ’غیر مشروط انسانی رسائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کے ہتھیار کے طور پر جاری منظم بھوک کی پالیسی کا خاتمہ کیا جا سکے۔‘
اس سے قبل پاکستانی وزارت خارجہ نے جمعے کو اپنے ایک علیحدہ بیان میں کہا تھا کہ پاکستان اسرائیلی قابض طاقت کے حالیہ بیانات کی سخت مذمت اور مکمل طور پر مسترد کرتا ہے جن میں نام نہاد ’گریٹر اسرائیل‘ کے قیام کا اشارہ دیا گیا۔ اسرائیل کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے زبردستی بے دخل کرنا ہے۔
بیان کے مطابق پاکستان عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایسے اشتعال انگیز تصورات کو یکسر مسترد کرے جو بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں اور متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’ایسے بیانات قابض طاقت کے اس ارادے کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ اپنے غیر قانونی قبضے کو مزید مضبوط کرے، اور خطے میں دیرپا امن و استحکام کے قیام کے لیے کی جانے والی تمام بین الاقوامی کوششوں کو یکسر حقیر سمجھے۔
’عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ قابض طاقت کو خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے سے روکنے اور فلسطینیوں کے خلاف جاری جرائم و مظالم ختم کرنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے۔‘
وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان فلسطینی عوام کے جائز حقوق بشمول حق خودارادیت اور ایک آزاد، قابل عمل اور ریاست فلسطین کے قیام کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتا ہے، جو 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہو اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
سات اکتوبر، 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت میں اب تک کم از کم 61 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔
غزہ میں تقریباً مکمل تباہی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے، اسرائیل نے پناہ گزینوں کو خوراک پہنچانے کے لیے بین الاقوامی امدادی اداروں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔