پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے سابق مشیر برائے قومی سلامتی امور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر جنجوعہ نے کہا ہے کہ ’جب تک سیز فائر کرانے والا ثالث ساتھ نہیں بیٹھے گا، ان ملاقاتوں کا نتیجہ نہیں نکلے گا۔‘
دونوں ملکوں کے مابین چار روز تک لڑاکا طیاروں، میزائلوں، ڈرونز اور توپ خانے کے حملوں میں کم از کم 60 اموات اور ہزاروں افراد کی نقل مکانی کے بعد ہفتے کو سیز فائر ہو گیا۔
پاکستان اور انڈیا میں ’مکمل اور فوری‘ سیزفائر کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کیا، جس کی بعد ازاں تصدیق دونوں ملکوں کی اعلیٰ قیادت نے بھی کی۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ دونوں ملک ایک غیر جانب دار مقام پر مختلف اہم امور پر بات چیت شروع کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں، جس کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر کسی تیسرے ملک میں ملاقات کریں گے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گذشتہ رات اپنے بیان میں بتایا تھا کہ ’پاکستان انڈیا جنگ کو ختم کرنے کے لیے امریکہ، چین، سعودی عرب اور برطانیہ کا کلیدی کردار ہے۔‘
اس حوالے سے ناصر جنجوعہ کہتے ہیں کہ ’جب تک سیز فائر کرانے والا ثالث ساتھ نہیں بیٹھے گا، ان ملاقاتوں کا نتیجہ نہیں نکلے گا۔‘
ناصر جنجوعہ کے مطابق ’انڈیا کی ہٹ دھرمی رہی تو سارے مسئلے ویسے کے ویسے ہی رہ جائیں گے۔ ہمیں اب امریکہ کو کہنا چاہیے کہ سیز فائر کروایا ہے تو ثالثی بھی کروائیں۔‘
امریکی صدر نے آج ایک بیان میں کہا کہ وہ پاکستان اور انڈیا کے ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کے لیے کوشش کریں گے۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’میں دونوں (پاکستان، انڈیا) کے ساتھ کام کروں گا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ’ہزاروں سال‘ بعد کشمیر کے معاملے کا کوئی حل نکالا جا سکتا ہے۔‘ پاکستان نے ان کے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے کشمیر کے حوالے سے بیان پر ناصر جنجوعہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں اس بات کا اب فائدہ اٹھانا ہو گا ورنہ اکیلے بیٹھنے سے پاکستان کو کچھ نہیں ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ثالثوں نے کہہ دیا کہ دونوں ممالک آپس میں بیٹھ کر بات کریں تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انڈیا کے ہونے والے نقصان پر درحقیقت امریکہ نے انہیں ریسکیو کیا ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ ’انڈیا پھر بھی بیانیہ بنائے گا کہ وہ غالب رہے اور وہ مذاکرات میں ایسے آئیں گے جیسے وہ پاکستان پر احسان کر رہے ہیں۔
پاکستان میں 1971 سے لے کر اب تک 10 مشیر برائے قومی سلامتی امور رہے ہیں۔ 1990 سے 2004 تک اس عہدے پر کسی کو تعینات نہیں کیا گیا۔
ناصر جنجوعہ اکتوبر 2015 سے لے کر جون 2018 تک آٹھویں مشیر رہے۔ پاکستان نے 30 اپریل کو ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو اس عہدے کی اضافی ذمہ داری سونپی ہے۔
حالیہ تنازعے اور لڑائی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کیا بات چیت متوقع ہے اس حوالے سے ناصر جنجوعہ نے کہا کہ ’میں نے بطور قومی سلامتی مشیر تین مرتبہ انڈین ہم منصب اجیت دوول سے ملاقات کی۔ ایک مرتبہ اکیلے اور دو مرتبہ وفد کے ساتھ ملاقات ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جب اس طرح کشیدہ صورت حال کے بعد ملاقات ہوتی ہے تو ایسا نہیں کہ قومی سلامتی کے مشیر خود ہی جا کر ملاقات کرتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ سیکریٹری خارجہ اور دفتر خارجہ کا وفد ہوتا ہے۔
’اسی طرح انڈیا کے مشیر قومی سلامتی بھی اپنے دفتر خارجہ کے وفد کے ہمراہ ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات کا درجہ اب بڑھانا چاہیے۔ دفتر خارجہ کے وفد میں دونوں ممالک کے وزرا خارجہ بھی ہونے چاہییں تاکہ یہ ملاقاتیں اعلیٰ سطح پر رجسٹرڈ ہوں۔ درجہ کم نہیں رکھنا چاہیے ورنہ کچھ نہیں ملے گا۔‘
ماضی میں انڈین مشیر برائے قومی سلامتی امور کے ساتھ ملاقاتیں کیسی رہیں؟ اس پر انہوں نے کہا ’میری جب 2015 کے نومبر میں اجیت دوول سے ملاقات ہوئی تو تب ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ہوا لیکن بہت طویل ڈسکشن کے بعد بالاآخر وہ مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ انہوں نے دہشت گردی کا نکتہ شامل کیا اور ہم نے کشمیر کا مدعا رکھا۔‘
پاکستان کے انڈیا سے کیا مطالبات ہو سکتے ہیں؟
سابق سیکریٹری خارجہ پاکستان جلیل عباس جیلانی نے، جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر بھی رہے، کہا سب سے پہلے انڈس واٹر ٹریٹی کو بحال کرانا چاہیے۔
’کشمیر کے پانچ اگست والے درجے کی بحالی بھی اس میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کا مستقل حل اور سیاچن، سرکریک کے تنازعات پر بھی بات چیت کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’قومی سلامتی مشیروں سے قبل ایک گراؤنڈ ورک کرنا ضروری ہے جس میں کاغذی کارروائی مکمل ہو کہ پاکستان نے کن کن نکات پر بات کرنی ہے اور کیسے بات کرنی ہے۔
’انڈیا جب پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگائے تو پاکستان بلوچ لبریشن آرمی کی فنڈنگ کے حوالے سے معاملہ اٹھائے کہ انڈیا عالمی طور پر کالعدم دہشت گرد جماعت کی مالی معاونت کر رہا ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کر رہا ہے۔ ان تمام باتوں کے پاکستان کے پاس حقیقی ثبوت بھی موجود ہیں۔‘
2019 کے تنازعے کے وقت انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہنے والے سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود کہتے ہیں کہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا جنوبی ایشیا ایک بحران سے دوسرے بحران کی طرف جاتا رہے گا۔
’میں توقع کرتا ہوں کہ پاکستان کشمیر کے معاملے پر زور دے گا۔ نیز سندھ طاس معاہدے کے خلاف غیر قانونی اور یکطرفہ انڈین کارروائی پاکستان کے لیے ترجیحی مسائل میں شامل ہو گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’انڈیا کی پاکستان خصوصاً بلوچستان میں دہشت گردی کی حمایت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سرزمین پر اس کے ماورائے عدالت اور ماورائے ارضی قتل و غارت ایک سنگین تشویش کا باعث ہے۔
’مجھے امید ہے پاکستان اس ناقابل قبول انڈین کردار کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرے گا۔‘
سابق مشیر برائے قومی سلامتی امور ناصر جنجوعہ کے مطابق ’تمام مطالبات جو پاکستان کی فہرست میں رہے ہیں ان سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔‘
سنوبر تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر ڈاکٹر قمر چیمہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی ممکنہ مطالبات میں سب سے پہلے دو طرفہ مذاکرات بحال ہونے چاہییں۔
’اس کے ساتھ ساتھ پاکستان انڈیا کے جو دو طرفہ مسائل ہیں ان سب پر بات چیت کرنی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انڈیا کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس کا حصہ بننا چاہیے، جو جارحانہ رویہ ہے اس کو کم کرنا چاہیے۔
’خطے میں روابط اب بڑھنے چاہیے۔ لائن آف کنٹرول کی جنگ بندی کو بھی بحال ہونے کی ضرورت ہے ورنہ اس کی وجہ سے بڑی جنگ کا خطرہ موجود رہے گا۔‘
سابق سیکریٹری خارجہ سہیل محمود نے کہا کہ ’ماضی میں پاکستان اور انڈیا میں مذاکرات ہوتے رہے ہیں اور ان کے ملے جلے نتائج برآمد ہوئے۔
’خاص طور پر جموں و کشمیر تنازعے پر بات چیت کا اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جب سے بی جے پی حکومت نے 2014 میں اقتدار سنبھالا ہے، ہندوستان نے مذاکراتی عمل کو مکمل طور پر روک دیا ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق وزیرِاعظم نریندر مودی نے آج اعلیٰ سرکاری حکام سے مشاورت کی ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس مشاورت میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور فوج کے سینیئر افسران شامل تھے۔
اجلاس کے بعد باقاعدہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے ساتھ بات چیت میں پہلگام واقعہ اٹھائے جانے کا غالب امکان ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات کی تاریخ
پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1947 کی تقسیم ہند کے بعد سے تعلقات اکثر کشیدگی کا شکار رہے۔ تاہم اس دوران کئی مواقع پر دونوں ممالک نے مذاکرات کے ذریعے تنازعات کے حل کی کوششیں بھی کیں۔
1949 میں اقوام متحدہ کی ثالثی سے جنگ بندی
اسی جنگ بندی کی بنیاد پر لائن آف کنٹرول (LoC) کا قیام عمل میں آیا۔
1960 کا سندھ طاس معاہدہ
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس معاہدے کے تحت مشرقی دریا انڈیا کو جبکہ مغربی دریا پاکستان کو دیے گئے۔ حال ہی میں پہلگام واقعے کے بعد انڈیا نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے کر معطل کر دیا ہے۔
تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ انڈیا اس معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق اگر انڈیا نے پاکستان کا پانی بند کیا تو پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔
1965 کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدہ
1972 میں شملہ معاہدہ
کارگل جنگ کے بعد آگرہ مذاکرات
2004 سے 2008 تک جامع مذاکراتی عمل
اوفا ملاقات اور پٹھان کوٹ حملہ
تاہم 2016 میں پٹھان کوٹ پر حملے کے بعد سفارتی عمل دوبارہ متاثر ہوا۔
پلوامہ حملہ اور جنگ کا خطرہ
صورت حال مکمل جنگ کی دہلیز تک پہنچی، تاہم بعد میں دونوں ممالک نے کشیدگی کم کرنے کا اعلان کیا۔
2021 میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعادہ