آسٹریلیا میں ایک سینیئر وکیل کو اس وقت عدالت سے معافی مانگنی پڑی جب قتل کے ایک مقدمے میں جمع کروائی گئی عدالتی دستاویزات میں جعلی حوالہ جات اور ایسے عدالتی فیصلوں کو شامل کیا گیا، جو دراصل مصنوعی ذہانت (اے آئی) سے بنائے گئے اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں تھا۔
یہ سنگین غلطی وکٹوریا کی سپریم کورٹ میں سامنے آئی جس سے عدالتی نظام پر اثر انداز ہونے والی مصنوعی ذہانت سے جڑی بڑھتی ہوئی غلطیوں کی فہرست میں اضافہ ہو گیا۔
مقدمے میں وکیل دفاع رشی ناتھوانی جو کنگز کونسل کا معزز خطاب رکھتے ہیں، نے قتل کے کم عمر ملزم کے مقدمے میں جمع کروائی گئی غلط معلومات کی ’مکمل ذمہ داری‘ قبول کی۔ عدالتی دستاویزات جنہیں جمعے کو امریکی خبر رساں ادارے دی ایسوسی ایٹڈ پریس نے دیکھا، میں وکیل کے اعتراف کی تفصیل موجود تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بدھ کو رشی ناتھوانی نے وکلائے صفائی کی ٹیم کی جانب سے بات کرتے ہوئے جسٹس جیمز ایلیٹ سے کہا کہ ’جو کچھ ہوا، اس پر ہمیں بہت افسوس ہے اور ہم شرمندہ ہیں۔‘
مصنوعی ذہانت کے استعمال سے پیدا ہونے والی ان غلطیوں کے باعث مقدمے کے فیصلے میں 24 گھنٹے کی تاخیر ہوئی، حالاں کہ جسٹس جیمز ایلیٹ بدھ ہی کو اسے نمٹانا چاہتے تھے۔ انہوں نے جمعرات کو فیصلہ دیا کہ رشی ناتھوانی کے مؤکل جن کی شناخت ان کی کم عمری کے باعث ظاہر نہیں کی جا سکتی، ذہنی معذوری کی وجہ سے قتل کے مجرم نہیں۔
جسٹس جیمز ایلیٹ نے جمعرات کو وکلا سے کہا کہ ’اگر نرمی سے بھی کہا جائے تو بھی ان واقعات کے پیش آنے کا انداز غیر تسلی بخش ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عدالت کی یہ صلاحیت کہ وہ وکلا کی جانب سے پیش کی گئی معلومات کی درستی پر انحصار کرے، انصاف کی درست فراہمی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔‘
عدالت میں جمع کروائی گئی جعلی دستاویزات میں ریاستی مقننہ میں کی گئی تقریر کے من گھڑت اقتباسات اور سپریم کورٹ کے فرضی مقدمات کے حوالے شامل تھے۔
یہ غلطیاں جج جیمز ایلیٹ کے معاونین نے اس وقت پکڑیں، جب وہ ان مقدمات کو تلاش نہ کر سکے اور انہوں نے وکلائے صفائی سے ان کی نقول فراہم کرنے کے لیے کہا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق وکلا نے تسلیم کیا کہ یہ حوالہ جات ’موجود ہی نہیں‘ اور جمع کروائی گئی دستاویز میں ’من گھڑت اقتباسات‘ شامل ہیں۔
وکلا نے وضاحت کی کہ انہوں نے ابتدا میں دیے گئے حوالہ جات کی درستی تو چیک کی مگر غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ باقی بھی درست ہوں گے۔
یہ دستاویزات استغاثہ کے وکیل ڈینیل پورسیڈو کو بھی بھیجی گئیں لیکن انہوں نے بھی ان کے درست ہونے کی جانچ نہیں کی۔
جج نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ نے گذشتہ سال وکلا کو ہدایات جاری کیں کہ وہ مصنوعی ذہانت کو کس طرح استعمال کریں۔
جج کا کہنا تھا کہ ’یہ قابل قبول نہیں کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جائے جب تک کہ اس کے نتیجے میں حاصل شدہ مواد کو آزادانہ اور مکمل طور پر جانچ نہ لیا جائے۔‘
عدالتی دستاویزات میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وکلا نے مصنوعی ذہانت کا کون سا نظام استعمال کیا۔
2023 میں امریکہ میں ایک ایسے ہی مقدمے میں ایک وفاقی جج نے دو وکلا اور ایک قانونی فرم پر 5000 ڈالر جرمانہ عائد کیا جب ان پر ایک طیارے کے حادثے کے دعوے میں فرضی قانونی تحقیق جمع کروانے پر چیٹ جی پی ٹی کے استعمال کا الزام لگایا گیا۔
جج پی کیون کاسٹل نے کہا کہ وکلا نے بدنیتی سے کام لیا لیکن انہوں نے وکلا کی جانب سے معذرت اور اصلاحی اقدامات کو سراہا اور اس بات کی وضاحت بھی کی کہ سخت پابندیوں کا نفاذ اس لیے ضروری نہیں کہ وہ یا دوسرے لوگ دلائل میں جعلی قانونی تاریخ گھڑنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے دوبارہ استعمال سے گریز کریں۔
اسی سال کے آخر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق ذاتی وکیل مائیکل کوہن کے وکلا کی جانب سے جمع کروائے گئے قانونی کاغذات میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے تیار کردہ مزید فرضی عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔
مائیکل کوہن نے الزام اپنے سر لیتے ہوئے کہا کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ قانونی تحقیق کے لیے گوگل کے جس ٹول کا استعمال کر رہے ہیں، وہ مصنوعی ذہانت کے نام نہاد وہم (hallucinations) کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔
© The Independent