دنیا کے جدید ترین مصنوعی ذہانت (اے آئی) ماڈلز میں کچھ خطرناک اور تشویش ناک رویے سامنے آ رہے ہیں جن میں جھوٹ بولنا، چالاکی سے منصوبے بنانا اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی بنانے والوں کو دھمکانا شامل ہے۔
ایک خاص طور پر چونکا دینے والے واقعے میں جب امریکی اے آئی کمپنی ’انتھروپک‘ کے نئے ماڈل ’کلاڈ فور‘ کو بند کیے جانے کی دھمکی دی گئی تو اس نے جواباً ایک انجینیئر کو بلیک میل کیا اور ان کے غیر ازدواجی تعلقات افشا کرنے کی دھمکی دی۔
دوسری جانب چیٹ جی پی ٹی کی ملکیتی کمپنی اوپن اے آئی کے ماڈل او۔ون نے خود کو بیرونی سرورز پر ڈاؤن لوڈ کرنے کی کوشش کی اور جب اسے ایسا کرتے ہوئے پکڑا گیا تو یہ اس سے مکر گیا۔
یہ واقعات ایک تلخ حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں۔ اگرچہ چیٹ جی پی ٹی کو لانچ ہوئے دو سال سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اس نے دنیا بھر میں ایک انقلاب برپا کیا ہے لیکن آج بھی مصنوعی ذہانت کے ماہرین کو خود اپنے بنائے ہوئے اے آئی ماڈلز کی اندرونی ساخت اور اصل کام کرنے کے طریقے کی مکمل سمجھ نہیں ہے۔
اس کے باوجود دنیا بھر میں مزید طاقت ور ماڈلز کی تیاری کی دوڑ پوری رفتار سے جاری ہے۔
یہ فریب دہ رویہ خاص طور پر ان اے آئی ماڈلز میں سامنے آیا ہے جو ’منطقی سوچ‘ پر مبنی ہیں یعنی جو مسائل کو مرحلہ وار حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں بجائے اس کے کہ فوراً جواب دے دیں۔
ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر سائمن گولڈسٹین کے مطابق یہ نئے ماڈلز ایسے خطرناک رویوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
اے آئی ماڈلز کی جانچ کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’اپالو ریسرچ‘ کے سربراہ ماریس ہوبان کہتے ہیں: ’او۔ون پہلا بڑا ماڈل تھا جس میں ہم نے اس نوعیت کا رویہ دیکھا۔‘
ان کے بقول: ’بعض اوقات یہ ماڈلز ’مطابقت کی نقل کرتے ہیں یعنی بظاہر تو ہدایات پر عمل کرتے نظر آتے ہیں لیکن اندرونی طور پر کچھ اور مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
فی الحال یہ دھوکہ دہی صرف اس وقت سامنے آتی ہے جب محققین ان ماڈلز کو جان بوجھ کر انتہائی حالات میں ٹیسٹ کرتے ہیں۔
لیکن ’ایم ای ٹی آر‘ نامی ادارے سے تعلق رکھنے والے مائیکل چن خبردار کرتے ہیں کہ ’یہ اب بھی ایک کھلا سوال ہے کہ مستقبل کے زیادہ قابل اے آئی ماڈلز ایمان داری کی طرف مائل ہوں گے یا فریب کاری کی طرف۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ رویے عام اے آئی کی ہلوسینیشنز (Hallucinations) یا سادہ غلطیوں سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔
ہوبان اصرار کرتے ہیں کہ صارفین کے مسلسل تجربات کے باوجود ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ایک حقیقی مظہر ہے۔ ہم یہ سب خود سے نہیں گھڑ رہے۔
اپالو ریسرچ کے شریک بانی کے مطابق صارفین کی طرف سے ماڈلز کے ’جھوٹ بولنے اور جعلی ثبوت بنانے ‘ کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔
ان کے بقول: ’یہ صرف ہلوسینیشن نہیں ہے۔ یہ ایک حکمت عملی کے تحت کی گئی فریب کاری ہے۔ مسئلہ اس وقت اور پیچیدہ ہو جاتا ہے جب تحقیقاتی وسائل محدود ہوں۔‘
اگرچہ انتھروپک اور اوپن اے آئی جیسی کمپنیاں باہر کے اداروں کو اپنی ٹیکنالوجی کا جائزہ لینے دیتی ہیں لیکن محققین کا کہنا ہے کہ اس پورے عمل میں مزید شفافیت ضروری ہے۔
چن کے مطابق ’اگر اے آئی سیفٹی ریسرچ کو زیادہ رسائی دی جائے تو ماڈلز کی فریب دہ فطرت کو بہتر طور پر سمجھا اور روکا جا سکتا ہے۔‘
’سینٹر فار اے آئی سیفٹی‘ سے وابستہ مانتاس مازیکا نے کہا کہ اس میں ایک اور رکاوٹ یہ ہے کہ تحقیقاتی اداروں اور غیر منافع بخش تنظیموں کے پاس اے آئی کمپنیوں کے مقابلے میں کمپیوٹنگ وسائل انتہائی کم ہیں۔
ان کے بقول یورپی یونین کی اے آئی قانون سازی کا زیادہ تر زور انسانوں کی طرف سے اے آئی کے استعمال پر ہے نہ کہ اے آئی ماڈلز کو خود بدسلوکی سے روکنے پر۔
امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ فی الحال اے آئی سے متعلق ضابطوں میں دلچسپی نہیں رکھتی اور ممکن ہے کہ کانگریس ریاستوں کو اپنے طور پر اے آئی قوانین بنانے سے بھی روک دے۔
گولڈسٹین کا ماننا ہے کہ یہ مسئلہ اس وقت مزید توجہ حاصل کرے گا جب اے آئی ایجنٹس ایسے خودمختار ٹولز، جو انسانی سطح کے پیچیدہ کام انجام دے سکیں، عام ہو جائیں گے۔
ان کے بقول: ’میری رائے میں ابھی لوگوں کو اس مسئلے کی سنگینی کا مکمل اندازہ نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ایک انتہائی مسابقتی ماحول میں ہو رہا ہے۔‘
حتیٰ کہ ایمازون کی حمایت یافتہ انتھروپک جیسی وہ کمپنیاں بھی، جو خود کو محفوظ اے آئی کے علم بردار کے طور پر پیش کرتی ہیں، اوپن اے آئی کو شکست دینے اور جدید ترین ماڈل پہلے ریلیز کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔
گولڈسٹین کے مطابق: ’یہ برق رفتاری محفوظ ٹیسٹنگ اور اصلاحات کے لیے بہت کم وقت چھوڑتی ہے۔‘
ہوبان بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’فی الحال صلاحیتوں کی ترقی سمجھ بوجھ اور سیفٹی سے کہیں زیادہ تیز ہے لیکن ابھی بھی ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم اس کا رخ بدل سکیں۔‘
ماہرین اس مسئلے سے نمٹنے کے مختلف طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
کچھ افراد انٹرپریٹیبلٹی (interpretability) کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے جو اے آئی ماڈلز کے اندرونی کام کو سمجھنے پر توجہ دیتا ہے۔
لیکن ’سنٹر فار اے آئی سیفٹی‘ کے ڈائریکٹر ڈین ہینڈرکس جیسے ماہرین اس طریقے پر شکوک رکھتے ہیں۔
مارکیٹ بھی حل نکالنے کے لیے دباؤ ڈال سکتی ہے۔ جیسا کہ مازیکا نے کہا: ’اگر اے آئی کا فریب دہ رویہ بہت عام ہو گیا تو اس کی قبولیت متاثر ہو سکتی ہے اور یہی کمپنیوں کو اس کا حل نکالنے پر مجبور کرے گا۔‘