چینی محققین نے انکشاف کیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ماڈلز معلومات کو انسانی دماغ کے انداز میں پراسیس کرتے ہیں۔
لارج لینگویج ماڈلز (ایل ایل ایمز) پر کی گئی ایک تحقیق سے یہ ثبوت ملا ہے کہ ’اوپن اے آئی‘ اور’ گوگل‘ کے تیار کردہ معروف مصنوعی ذہانت کے ٹولز معلومات کو خودبخود ایک مخصوص ترتیب میں منظم کرتے ہیں حالانکہ انہیں اس طریقے سے تربیت نہیں دی گئی تھی۔
چائنیز اکیڈمی آف سائنسز اور ساؤتھ چائنہ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کی ایک ٹیم کی اس تحقیق میں یہ انکشاف ہوا کہ لارج لینگویج ماڈلز میں انسانی سوچ کے انداز سے ملتی جلتی بنیادی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ یہ صرف پیٹرن کی نقالی نہیں کرتے بلکہ انسانوں کی طرح چیزوں کو سمجھنے کا رجحان رکھتے ہیں۔
محققین نے اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی 3.5 اور گوگل کے جیمنائی پرو ویژن کو ایک ’اوڈ ون آؤٹ‘(Odd-one-out) ٹاسک دیا جس کے دوران ان اے آئی ماڈلز نے اشیا کو درجہ بند کرنے کے لیے 66 تصوراتی جہتیں تشکیل دیں۔
محققین نے کہا کہ حیران کن طور پر اے آئی ماڈلز نے چیزوں کو سمجھنے کے لیے جو طریقے اپنائے، وہ انسانوں کی سوچ کے انداز جیسے اور قابل فہم تھے۔
یہ تحقیق واضح طور پر دکھاتی ہے کہ اگرچہ لارج لینگویج ماڈلز چیزوں کو سمجھنے کا جو طریقہ اپناتے ہیں، وہ انسانوں کے طریقے جیسا تو مکمل نہیں، مگر اس میں کئی ایسی بنیادی باتیں شامل ہوتی ہیں جو ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ملتی جلتی ہیں۔
اس تحقیق کی تفصیل ’Human-like object concept representations emerge naturally in multimodal large language models‘ کے عنوان سے سائنسی جریدے ’نیچر مشین انٹیلی جنس‘ میں شائع ہوئی ہے۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ ان کے نتائج انسانی دماغ جیسی خصوصیات رکھنے والے مصنوعی ادراکی نظام کی ترقی میں مدد دیں گے جو انسانوں کے ساتھ بہتر تعاون کر سکیں گے۔
دوسری جانب دیگر تحقیقی ٹیمیں بھی زیادہ انسانوں جیسے اے آئی سسٹمز پر کام کر رہی ہیں۔ ایک آسٹریلوی سٹارٹ اپ نے حال ہی میں دنیا کا پہلا تجارتی بائیولوجیکل کمپیوٹر پیش کیا ہے جو جیتے جاگتے انسانی دماغی خلیوں (neurons) پر مبنی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کارٹیکل لیبز‘ کے تیار کردہ اس ’باڈی اِن اے باکس‘ کمپیوٹر میں لیبارٹری میں بنائے گئے نیورونز کو ایک سلیکون چِپ پر نصب کیا گیا ہے جو برقی سگنل بھیجنے اور وصول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس سٹارٹ اپ کا دعویٰ ہے کہ بائیولوجیکل بنیادوں پر مبنی یہ نظام روایتی کمپیوٹنگ سسٹمز کی نسبت زیادہ مؤثر طریقے سے سیکھنے اور خود کو ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس نظام کا ابتدائی ورژن یہ دکھا چکا ہے کہ آٹھ لاکھ انسانی اور چوہوں کے نیورونز پر مشتمل نیٹ ورک نے خود سے مشہور ویڈیو گیم ’پونگ‘ کھیلنا سیکھ لیا۔
سائنسی جریدے ’سیل‘ میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق جب یہ نیورونز گیم کی دنیا میں استعمال کیے گئے تو ان میں انسانی شعور جیسے آثار دیکھے گئے۔
اس کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق: ’ہماری ٹیکنالوجی حیاتیات اور روایتی کمپیوٹنگ کو یکجا کرتی ہے تاکہ ایک انتہائی بہترین سیکھنے والی مشین تخلیق کی جا سکے۔
’یہ نیورون خود کو پروگرام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لامحدود حد تک لچکدار ہے اور چار ارب سال کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔‘
© The Independent