ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زندگی میں پیش آنے والا ذہنی دباؤ کا ایک ہی واقعہ بار بار بال گرنے کا سبب بننے کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے محققین نے دریافت کیا کہ جب ذہنی دباؤ کے کسی واقعے کے دوران بالوں کی جڑیں ختم ہو گئیں، تو جسم کا مدافعتی نظام مستقبل میں اسی طرح کے واقعات کے دوران بالوں کی مزید جڑوں پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔
یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ ذہنی دباؤ صحت کو متاثر کرتا ہے، بشمول مدافعتی نظام کی کارکردگی کے۔
تاہم، وہ دقیق طریقے جن کے ذریعے ذہنی دباؤ کا ایک ہی تجربہ مختلف بافتوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، ابھی تک پوری طرح سمجھ میں نہیں آ سکے۔
خاص طور پر، یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا شدید ذہنی دباؤ کا کوئی واقعہ دیرپا اثرات مرتب کر سکتا ہے یا نہیں۔
ماضی میں ہونے والی کچھ تحقیق میں یہ اشارہ ملا کہ ذہنی دباؤ کے بالوں کی جڑوں پر فوری اور طویل مدتی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
اب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چوہوں میں ذہنی دباؤ بالوں کے گرنے کا سبب بن سکتا ہے اور تیزی سے مدافعتی نظام کے ٹی سیلز کو متحرک کر سکتا ہے جس سے وہ مستقبل میں بار بار بال گرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ شدید نوعیت کا ذہنی دباؤ چوہے کے ہمدرد اعصابی نظام کو انتہائی متحرک کر دیتا ہے، جو ’لڑو یا بھاگو‘ کے ردعمل کے لیے دل کی دھڑکن اور پٹھوں کی طاقت بڑھانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
اس کے بعد یہ چوہے کے مدافعتی نظام کے سی ڈی ایٹ پلس ٹی سیلز کو فعال کرتا ہے، جو بالوں کی جڑوں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ ابتدائی ذہنی دباؤ کم ہونے کے بعد بھی، یہ ٹی سیلز بعد میں ہونے والی سوزش پر دوبارہ بال گرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
انہوں نے جریدے سیل (Cell) میں شائع ہونے والی تحقیق میں لکھا کہ ’ہمارے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ شدید ذہنی دباؤ کا ایک ہی واقعہ فوری نقصان کا باعث بنتا ہے اور ایسا کرنے سے، یہ نایاب خود کار ردعمل ظاہر کرنے والے سی ڈی ایٹ پلس ٹی سیلز کو فعال کرتا ہے اور ان میں وسعت لاتا ہے، جو ٹشوز کو مستقبل میں مدافعتی حملے کے لیے تیار کرتے ہیں۔‘
’اس طرح، شدید ذہنی دباؤ کا ایک ہی واقعہ فوری نقصان کا سبب بن سکتا ہے اور اس عمل کے دوران، اسی ٹشو کو مستقبل میں ہونے والے نقصان کے خطرے سے دوچار کر سکتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اس قسم کا مدافعتی ردعمل ایک ایسا طریقہ ہو سکتا ہے جس کے ذریعے جسم میٹابولک لحاظ سے قیمتی لیکن قابل متبادل خلیات کی قربانی دیتا ہے تاکہ ضروری سٹیم سیلز کو محفوظ رکھا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ خطرے کی حالت میں بالوں کی کچھ جڑوں کی قربانی دے کر، چوہوں کے جسم شاید ان سٹیم سیلز کو محفوظ کر رہے ہوتے ہیں جو خطرہ ٹل جانے کے بعد ٹشوز کو دوبارہ پیدا کرتے ہیں۔
یہ عمل ’اہم ترین دباؤ کے ردعمل کے لیے محدود وسائل کو محفوظ کرنے کی خاطر ایک حکمت عملی پر مبنی سمجھوتے‘ کی نمائندگی کر سکتا ہے۔
انہوں نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ ’مختصراً یہ کہ ہماری تحقیق یہ واضح کرتی ہے کہ ذہنی دباؤ کس طرح ٹشوز کو فوری طور پر اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ میکانزم جسم کے مدافعتی نظام کے بالوں کی جڑوں پر حملے کے آغاز اور ذہنی دباؤ کے ساتھ اس کے اکثر پائے جانے والے تعلق کی وضاحت میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔‘
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے مدافعتی نظام کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر حملے، ٹائپ ون ذیابیطس اور لیوپس (مدافعتی نظام کا جسم پر حملہ) جیسی بیماریوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے، جن کی وجوہات اب بھی پیچیدہ ہیں۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ انسانی ٹشوز میں ذہنی دباؤ کی وجہ سے بال گرنے پر مزید تحقیق ان بیماریوں کے پیچھے چھپی پیچیدہ وجوہات کی گتھیاں سلجھانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
© The Independent