آہ! کافی۔ یہ آج کل ایک ایسی مقبول برائی بن چکی ہے کہ اس نے اپنی ایک پوری ثقافت کو جنم دے دیا ہے یعنی’جیو، مسکراؤ، محبت کرو۔‘ کے انداز والی ثقافت، جس میں شرمندہ کر دینے والی چیزیں بھی شامل ہیں (جیسے ٹی شرٹس جن پر لکھا ہو: ’بس مجھے کافی دے دو تو کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔‘ یا پیالوں پر درج نعرے: ’پہلے کافی، پھر باقی کام‘ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔)
اگرچہ میں اس حد تک تو کبھی نہیں گئی کہ ’شراب کے وقت‘ جیسی فضول اور نمائشی اشیا کا ’کیفین والا متبادل‘ اپناؤں، لیکن کافی میرے لیے ہمیشہ ان چھوٹی چھوٹی اور بااعتماد خوشیوں میں سے ایک رہی ہے جو روزمرہ زندگی کو جینے کے قابل بناتی ہیں۔‘
لیکن پھر اچانک، تقریباً راتوں رات، یہ تازگی بخشنے والا دوست میرا دشمن بن گیا۔ اب ایک کپ سے زیادہ کافی (اور کبھی کبھی تو وہ بھی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے) مجھے گھبراہٹ اور بے چینی میں مبتلا کر دیتی ہے۔
معدے میں ایسا عجیب مروڑ اٹھتا ہے جو عام طور پر امتحان دیتے وقت یا پہلی ملاقات کے بعد کسی خوبصورت مرد کے پیغام کے انتظار میں اٹھتا ہے۔ یہ احساس اتنا اجنبی تھا کہ شروع میں مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ ہو کیا رہا ہے۔ کیا یہ ماہواری بند ہونے سے قبل کے دنوں کے اثرات تھے جن پر 35 سال کے بعد ہر چیز کا الزام لگا دیا جاتا ہے؟ کیا یہ کام کا دباؤ تھا؟ یا شاید جنگ، ٹرمپ اور ملک بھر میں پھیلتی شدت پسندی کے شور شرابے کا نتیجہ؟
ایک نسبتاً سمجھدار واقف کار نے مشورہ دیا کہ ’کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ شاید اب تمہارا جسم کیفین برداشت نہیں کر پا رہا؟‘ یہ خیال اگرچہ معقول تھا، لیکن مجھے سراسر ناانصافی لگا۔ آخر اس سیارے پر 38 سال گزارنے کے بعد میرا جسم اچانک میرے خلاف کیوں ہو گیا؟ کیا میں کمزور ہو گئی ہوں، یا یہ بھی بڑھتی عمر کے ساتھ آنے والے ان فضول اثرات میں سے ایک ہے؟
شاید دونوں ہی باتیں۔ جس طرح ہر کافی یکساں نہیں ہوتی۔ برانڈ یا کافی شاپ کے لحاظ سے اس کی تیزی مختلف ہوتی ہے، اور پسی ہوئی کافی انسٹنٹ کافی کے مقابلے میں زیادہ تیز ہوتی ہے۔ اسی طرح انسانوں میں اسے برداشت کرنے کی صلاحیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ اس کا انحصار جینیات، ادویات، جسمانی ساخت، ہارمونز، نیند اور طرزِ زندگی جیسے کہ تمباکو نوشی اور غذا کے استعمال، پر ہوتا ہے۔ ماہر غذائیت اور کتاب ’سو گڈ اینڈ لِیو ٹو ایٹ‘ کی مصنفہ ایملی انگلش بتاتی ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ’ایک ہی کافی کسی ایک شخص کے لیے بالکل ٹھیک ہو سکتی ہے جبکہ دوسرے کے لیے بہت زیادہ تیز۔‘
کیفین پینے کے تقریباً ایک گھنٹے کے اندر تیزی سے جذب ہو جاتی ہے اور 30 سے 60 منٹ بعد خون میں اپنی انتہا پر پہنچ جاتی ہے۔ اس کی نصف عمر یعنی وہ وقت جس میں آپ کے جسم میں کسی مادے کی مقدار آدھی رہ جاتی ہے، صحت مند انسانوں میں عام طور پر تین سے سات گھنٹے کے درمیان ہوتی ہے۔
لیکن یہ دورانیہ ساڑھے نو گھنٹے تک بھی ہو سکتا ہے۔ عمر، جینیات، جگر کی کارکردگی، ادویات اور ہارمونز سب اس دورانیے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایملی انگلش کے مطابق یہی وجہ ہے کہ ’سہ پہر کے بعد پی گئی کافی رات کی نیند خراب کر سکتی ہے۔‘ اگر آپ سہ پہر تین بجے 200 ملی گرام کیفین والی کافی پیتے ہیں، تو رات آٹھ بجے تک اس کا 100 ملی گرام، رات ایک بجے 50 ملی گرام اور اگلی صبح چھ بجے بھی تقریباً 25 ملی گرام آپ کے جسم میں موجود ہوگا۔
یونیورسٹی آف باتھ نے ایک تحقیق کی جس میں خراب نیند کے بعد کافی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا، خاص طور پر یہ کہ یہ بلڈ شوگر کی سطح کو کیسے متاثر کرتی ہے اور میٹابولزم پر کیا اثر ڈالتی ہے؟ اس میں عمر کوئی بہت بڑا عنصر ثابت نہیں ہوئی، لیکن کچھ لوگوں میں کیفین کو ہضم کرنے والے جینز میں ایک معمولی سی تبدیلی ہوتی ہے جو اس بات پر اثر انداز ہو سکتی ہے کہ کیفین کتنی دیر تک ان کے نظام میں رہتی ہے۔
مرکزی محقق ہیری اسمتھ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ سی وائے پی آئی اے ٹو وہ اہم انزائم ہے جو جسم سے کیفین صاف کرنے کا ذمہ دار ہے، اور اسی کی بنیاد پر لوگوں کو تیز اور سست میٹابولزم کی کیٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‘ جینز میں ایک تبدیلی ’اس بات کی وجہ ہو سکتی ہے کہ کچھ لوگ بغیر کسی نقصان کے پانچ کپ سے زیادہ کافی پی لیتے ہیں، جب کہ دوسرے دن بھر میں صرف ایک ہی کپ برداشت کر پاتے ہیں۔‘
تاہم ماہرین کے مطابق، جب کافی کی بات آتی ہے تو بڑھتی عمر کے بھی واضح جسمانی اثرات ہوتے ہیں۔ برٹش ڈائیٹیٹک ایسوسی ایشن (بی ڈی اے) کی ترجمان اور رجسٹرڈ ماہرِ غذائیت نکولا لڈلم رین کہتی ہیں، ’بہت سے لوگ عمر بڑھنے کے ساتھ کیفین کے حوالے سے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔‘ وہ مجھے بتاتی ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمر کے ساتھ ہمارا میٹابولزم سست پڑ جاتا ہے۔ کیفین جگر میں تحلیل ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، انزائمز کم ہوتے جاتے ہیں اور جگر کے وہ انزائمز جو کیفین کو ہضم کرتے ہیں خاص طور پر سی وائے پی آئی اے ٹو، کم فعال اور کم کارآمد ہو جاتے ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’نتیجے کے طور پر، کیفین زیادہ دیر تک جسم میں رہتی ہے۔
جسم سے کیفین نکلنے کی رفتار سست ہونے سے وہ ناگوار کیفیات پیدا ہو سکتی ہیں جو میں محسوس کر رہی ہوں، کیوں کہ جیسا کہ ڈاکٹر الزبتھ کو اور ڈاکٹر ایو گلیزر نے ’یو سی ایل اے ہیلتھ‘ کے لیے لکھا: ’اس کا مطلب ہے کہ کافی کی اتنی ہی مقدار، جو کوئی شخص عادت کے طور پر پیتا رہا ہے، اب زیادہ شدید اثر دکھائے گی۔‘
’اس سے گھبراہٹ، چڑچڑاپن، بے چینی، سونے میں دشواری، بے خوابی اور دل کی دھڑکن تیز ہونے جیسی ناگوار علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔‘ یعنی اگر میرا جسم پہلی کافی کی کیفین کو اتنی تیزی سے نہیں نکال پایا جتنا پہلے نکالتا تھا، اور میں اس کے اوپر دوسرا یا تیسرا کپ بھی پی لیتی ہوں، تو ظاہر ہے کہ کیفین جمع ہونے کی وجہ سے اس کے جسمانی اثرات زیادہ نمایاں ہو جائیں گے۔
جو تحقیق عمر بڑھنے کے ساتھ بڑھتی ہوئی حساسیت کو سب سے زیادہ حتمی طور پر ظاہر کرتی ہے، اس کا تعلق 60 کی دہائی کے وسط اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں سے ہے۔ ایک تحقیق میں پایا گیا کہ 65 سے 70 سال کی عمر کے کافی پینے والوں کو اپنے سے کم عمر لوگوں کے مقابلے میں کیفین ہضم کرنے میں 33 فیصد زیادہ وقت لگا۔ لیکن یونیورسٹی آف باتھ کے سینٹر فار نیوٹریشن، ایکسرسائز اینڈ میٹابولزم کے پروفیسر جیمز اے بیٹس کے مطابق، یہ حساسیت ممکنہ طور پر کم عمری میں بھی متاثر کر سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں، ’عمر کے ساتھ کیفین کے اثرات میں تبدیلی کا وقت اور شدت ہم سب کے لیے مختلف ہوگی۔ جیسا کہ بڑھاپے کے زیادہ تر پہلوؤں کے ساتھ ہوتا ہے، ہمارے جسمانی نظام اور اعضا مختلف رفتار سے ڈھلتے ہیں۔ اس میں کچھ قدرتی فرق بھی ہو سکتا ہے کہ ہم کتنی تیزی سے بوڑھے ہوتے ہیں، لیکن اکثر اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنے جسم کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔‘
لڈلم رین اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ یہ ہر فرد کے لیے مختلف ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ 40 سال کی عمر کے بعد اس تبدیلی کو محسوس کرتے ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ ہارمونز میں تبدیلیاں ’بڑا فرق‘ ڈال سکتی ہیں۔ ایسٹروجن ہارمون کیفین کے ہضم ہونے کی رفتار کو سست کر سکتا ہے، اس لیے ہارمونز کے اتار چڑھاؤ کے دوران، جیسے کہ مینوپاز سے پہلے یا مانع حمل گولیاں لیتے وقت، کیفین جسم میں زیادہ دیر تک رہ سکتی ہے، لڈلم رین وضاحت کرتی ہیں کہ ’اس سے ضمنی اثرات جیسے گھبراہٹ، دل کی دھڑکن تیز ہونا، یا نیند کے مسائل کا امکان بڑھ سکتا ہے۔
میرا بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کیفین کی اس بڑھتی ہوئی حساسیت کو ختم یا واپس کیا جا سکتا ہے؟ مختصر جواب ہے کہ جی نہیں۔
لڈلم رین کے بقول: ’اس کا زیادہ تر انحصار جینیات، عمر اور ہارمونز کی تبدیلیوں پر ہے۔‘ تاہم، آپ آہستہ آہستہ کافی کی مقدار کم کر کے، وقفے وقفے سے پی کر اور دن کے آخری حصے میں اس سے پرہیز کر کے علامات کو کم کر سکتے ہیں (ہم میں سے اکثر کے لیے دوپہر دو بجے کے بعد کافی پینا ٹھیک نہیں)۔ پانی کی کمی نہ ہونے دینا، باقاعدگی سے کھانا کھانا اور زیادہ نیند لینا بھی کیفین کے باعث ہونے والی گھبراہٹ یا کپکپاہٹ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
اور کافی کے شوقین افراد اپنی طلب پوری کرنے کے لیے کچھ اور بھی کر سکتے ہیں۔ عام کافی کی جگہ ’ڈیکیف‘ (بغیر کیفین والی) یا ’ہاف کیف‘ (عام اور ڈیکیف کا ملغوبہ) استعمال کرنا تبدیلی کو آسان بنا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ یقینی بنانا کہ آپ پروٹین اور فائبر سے بھرپور ناشتہ کریں اور اپنی پہلی کافی سے پہلے ایک گلاس پانی پی لیں، بلڈ شوگر کو مستحکم رکھنے اور جسم میں پانی کی مقدار برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اگرچہ مجھے اچانک ’ان لوگوں‘ (جو کافی نہیں پی سکتے) میں شامل ہونے سے شدید کوفت ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ اب یہ تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے کہ میری روزانہ تین کپ کافی کی عادت کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ یا تو میں یہ مان لوں، یا پھر خود کو تسلی دینے کے لیے ایک ایسا مگ خرید لوں جس پر لکھا ہو کہ ’بس مجھے متبادل کافی دے دو تو کسی کو نقصان نہیں پہنچے گا۔‘
© The Independent