سفید بال کینسر کے خلاف مدافعت کی علامت ہو سکتے ہیں: سائنس دان

ایک نئی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر سفید بال ایک لحاظ سے جسم کی ایک چھوٹی سی قربانی کی علامت ہے، یعنی ایک خلیہ جو خطرناک بننے کے بجائے خود فنا ہو جانا بہتر سمجھتا ہے۔

حالیہ تحقیق نے بالوں میں رنگت کے ختم ہونے اور ان حیاتیاتی نظاموں کے درمیان ایک حیران کن تعلق ظاہر کیا ہے، جو کینسر سے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں (اینواتو)

سفید بال عمر رسیدگی کی علامت اور گزرتے وقت اور اس کے ساتھ آنے والی جسمانی تبدیلیوں کی ایک ظاہری یاد دہانی ہیں، لیکن اب سائنسی تحقیق اس سادہ تصور کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کر رہی ہے کہ ہمارے سر پر نمودار ہونے والی چاندی جیسی لٹیں دراصل ہمارے جسم کے اندر کینسر کے خلاف موجود نہایت پیچیدہ مدافعتی نظام کی علامت ہو سکتی ہیں۔

چوہوں پر کی جانے والی ایک نئی تحقیق نے وہ حیرت انگیز طریقے ظاہر کیے ہیں، جن کے ذریعے ہمارا جسم خلیوں کو پہنچنے والے نقصان کو ٹھیک کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے، جو عمر رسیدگی اور کینسر دونوں میں بنیادی کردار رکھتا ہے۔

عمر رسیدگی میں، خلیوں کو پہنچنے والا نقصان آہستہ آہستہ ان کے افعال کو کمزور اور متاثر کرتا ہے۔ جب کہ کینسر میں، ایسے خلیے جنہیں نقصان پہنچا ہو لیکن وہ درست نہ کیے گئے ہوں، غیر معمولی بڑھوتری اور رسولی بننے کا سبب بن سکتے ہیں۔

اس تحقیق نے بالوں میں رنگت کے ختم ہونے اور ان حیاتیاتی نظاموں کے درمیان ایک حیران کن تعلق ظاہر کیا ہے، جو کینسر سے تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

یہ دریافت میلینوسائٹ سٹیم سیلز کے گرد مرکوز ہے۔ یہ خلیے بالوں کے فولی کلز کی گہرائی میں پائے جاتے ہیں اور وہ خلیے پیدا کرتے ہیں جو میلینوسائٹس کہلاتے ہیں، یعنی وہ رنگ پیدا کرنے والے خلیے جو بالوں اور جلد کے رنگ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عام حالات میں، میلینوسائٹ سٹیم سیلز بالوں کی قدرتی افزائش اور جھڑنے  کے ساتھ ساتھ بار بار متحرک، آرام دہ اور دوبارہ تخلیقی مراحل سے گزرتے ہوئے ان رنگ پیدا کرنے والے خلیوں کو مسلسل نیا کرتے رہتے ہیں۔ اس عمل کی بدولت ہماری زندگی کے زیادہ تر حصے میں بالوں کا رنگ برقرار رہتا ہے۔

تاہم، روزانہ ہمارے خلیوں کا ڈی این اے بیرونی حملوں کی زد میں رہتا ہے، مثلاً سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں، کیمیائی مادوں کا اثر اور خلیات کا میٹابولزم کا عمل۔ یہ خلیاتی نقصان عمر رسیدگی اور کینسر، دونوں کے امکانات کو بڑھاتا ہے، خاص طور پر جلد کے کینسر میلانومہ کے خطرے کو۔

اس نئی تحقیق نے یہ واضح کیا ہے کہ جب بالوں کے فولی کلز کے اندر موجود میلینوسائٹ سٹیم سیلز کے ڈی این اے کو نقصان پہنچتا ہے، خاص طور پر ڈبل سٹرینڈ بریکس کی صورت میں، تو کیا ہوتا ہے۔

ایسے موقعے پر یہ سٹیم سیلز ایک عمل سے گزرتے ہیں جسے ’سینو ڈیفرینشی ایشن‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خلیے ناقابلِ واپسی طور پر پختہ رنگ پیدا کرنے والے خلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور پھر سٹیم سیل کے ذخیرے سے غائب ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً بالوں میں آہستہ آہستہ سفیدی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

یہ حفاظتی عمل اندرونی سگنلز کے ذریعے نہایت منظم ہوتا ہے جو خلیوں کو ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ جب یہ پختہ خلیے سٹیم سیلز کے مجموعے سے نکال دیے جاتے ہیں تو اس سے ممکنہ خطرناک جینیاتی تبدیلیوں کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے، جو بعد میں کینسر کا باعث بن سکتی ہیں۔

ایک لحاظ سے، ہر سفید بال جسم کی ایک چھوٹی سی قربانی کی علامت ہے۔ ایک خلیہ جو خطرناک بننے کے بجائے خود فنا ہو جانا بہتر سمجھتا ہے۔

کینسر سے تعلق

مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ہر قسم کا ڈی این اے نقصان اس حفاظتی عمل کو متحرک نہیں کرتا۔ اپنی تجرباتی تحقیق میں سائنس دانوں نے چوہوں کے میلینوسائٹ سٹیم سیلز کو طاقتور کینسر پیدا کرنے والے کیمیکلز اور بالائے بنفشی شعاعوں کے سامنے رکھا۔ حیرت انگیز طور پر، ان دباؤوں کے تحت سٹیم سیلز نے سینو ڈیفرینشی ایشن کے عمل کو بالکل نظرانداز کر دیا۔

بلکہ اردگرد کے ٹشوز سے ملنے والے سگنلز نے ان نقصان زدہ خلیوں کو مزید تقسیم اور افزائش جاری رکھنے کی ترغیب دی، باوجود اس کے کہ ان میں جینیاتی نقص موجود تھا۔ اس طرح ایک ایسا خلیاتی ماحول پیدا ہوا جو میلانومہ کے ابھرنے کے لیے موزوں تھا۔

تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ میلینوسائٹ سٹیم سیلز کی تقدیر کا انحصار اس نقصان کی نوعیت اور ان مالیکیولر اشاروں پر ہے، جو ان کے اردگرد کے ماحول میں موجود ہوتے ہیں۔ بعض دباؤ جیسے کیمیکلز یا الٹرا وائلٹ شعاعیں ڈی این اے میں دراڑیں ڈال کر خلیوں کو خود تباہی کے عمل پر مجبور کرتی ہیں، یہی عمل بالوں کو سفید کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

لیکن جب یہ خلیے کینسر زدہ سگنلز کے زیرِ اثر ہوتے ہیں تو تباہ ہونے کے بجائے برقرار رہتے ہیں اور یہی خلیے بعد میں رسولی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ سائنس دان اس کیفیت کو متضاد تقدیریں (antagonistic fates) قرار دیتے ہیں، یعنی ایک ہی سٹیم سیل گروہ حالات کے لحاظ سے دو بالکل مختلف راستے اختیار کر سکتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ دریافت بالوں کی سفیدی اور کینسر کو الگ الگ واقعات کے بجائے ایک ہی حیاتیاتی جدوجہد کے دو پہلوؤں کے طور پر پیش کرتی ہے، یعنی جسم کی وہ صدیوں پرانی جدوجہد جو ایک طرف ٹشوز کی تجدید چاہتی ہے اور دوسری طرف کینسر سے بچاؤ۔ بالوں کی سفیدی بذاتِ خود کینسر سے تحفظ نہیں دیتی، بلکہ ایک ایسے حفاظتی عمل کا نتیجہ ہے، جو خطرناک خلیوں کو ختم کر دیتا ہے۔

جب یہی حفاظتی نظام ناکام ہو جائیں یا سرطان پیدا کرنے والے مادے انہیں بگاڑ دیں، تو جسم میں بیماری کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی بات اس بات کی وضاحت بھی کر سکتی ہے کہ بڑھتی عمر کے ساتھ کینسر کا خطرہ کیوں زیادہ ہوتا ہے۔

یقیناً یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ نتائج زیادہ تر چوہوں پر تجربات سے حاصل ہوئے ہیں، اس لیے مزید تحقیق انسانوں پر ہونی باقی ہے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا ہمارے میلینوسائٹ سٹیم سیلز بھی اسی طرح کام کرتے ہیں یا نہیں۔ انسان اور دوسرے جانداروں کے درمیان حیاتیاتی فرق، طرزِ زندگی اور جینیاتی پیچیدگیاں ان نتائج کو مزید متنوع بنا سکتی ہیں۔

پھر بھی، یہ دریافتیں عمر رسیدگی اور کینسر دونوں کے مطالعے کے لیے نئی راہیں کھولتی ہیں۔ اگر ہم ان سگنلز کو سمجھ لیں جو سٹیم سیلز کو یا تو تحفظ کی طرف یا خطرے کی طرف لے جاتے ہیں، تو ایک دن ہم ایسے علاج وضع کر سکیں گے جو جسم کے قدرتی دفاعی نظام کو مضبوط بنائیں اور عمر کے ساتھ کینسر کے خطرے کو کم کریں۔

اس کے مزید وسیع مضمرات بھی ہیں۔ یہ سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ بعض لوگ واضح خطرناک عوامل کے بغیر بھی کینسر میں کیوں مبتلا ہو جاتے ہیں  اور کیوں بڑھتی عمر میں جسمانی بگاڑ اور سرطان اکثر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

آخرکار، سفید بالوں کی کہانی صرف حسن یا وقت کے گزرنے کی نہیں، بلکہ ارتقا، موافقت اور ہمارے جسم کے اندرونی محافظوں کی مستقل داستان ہے۔

یہ چاندی جیسی لٹیں ہمیں شاید ایک پیغام دے رہی ہیں کہ عمر رسیدگی اور کینسر کی کشمکش میں، کبھی کبھی پورے جسم کی بھلائی کے لیے ایک رنگدار خلیے کی قربانی ضروری ہوتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق